جیل اور انقلاب
تحریر: نتھا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
حالیہ دنوں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تحریک اور اُس کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن پر بے شمار بیانیے، تبصرے اور آرا آپ کو سوشل میڈیا اور نجی محفلوں میں گردش کرتی ملیں گی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر، بی۔وائی۔سی کے اب نیست و نابود ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، تو کہیں بلوچ رفقا بھی اسی بیانیے کے زیرِسایہ تجزیاتی جوش میں ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت دیگر رہنماؤں کی بندش کو بی۔وائی۔سی کی آخری ہچکی سے تشبیہ دیتے ہیں جبکہ چند نوجوان اس اسرار پر قائم ہیں کہ جنگ ہاری نہیں، جاری ہے لیکن اس سارے شور و شرابے میں حالات و واقعات کا حقیقت اور قومی مفاد پر مبنی جائزہ شاز و نادر ہی کہیں ملیں گی۔ ہر کوئی اپنے توہمات و مفادات کے سانچے میں اس تحریک کو اپنی ہی کسی کہانی میں فٹ کرنے کی ضد پر قائم ہے۔
جارج آرویل اپنی کتاب 1984 میں جب ایک تصوراتی ظالم و جابر ریاست کی تصویر کھینچتا ہے، تو وہاں پر آبادی کو زیرِ تسلط رکھنے اور حکومت کے خلاف بغاوت سے روکنے کی خاطر بے شمار ایسے طریقے استعمال میں لائی جاتی ہیں، جو مختلف اشکال میں بلوچستان کی سرزمین پر بھی نہایت ہی جارحانہ طرز پر آزمائی جا رہی ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ موثر اخبار و میڈیا پر مسلسل کنٹرول اور لوگوں کی ذہن سازی کی خاطر اُس کا استعمال ہے۔ پی۔ٹی۔آئی کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ناراضی کے بعد نہ صرف فوج کے پی آر کی خاطر استعمال ہونے والی پی ٹی آئی کی میڈیا ونگ اُس کے خلاف بیانیہ سازی شروع کرتی ہے، بلکہ پاکستانی معاشرے میں سیاست میں مسلسل دخل اندازی پر فوج کے خلاف غم و غصہ کی لہر اٹھتی ہے۔ اور لوگوں کا بھروسہ اس فوج سے اٹھتا جاتا ہے۔
جب بلوچ یکجہتی کمیٹی، دسمبر 2023 کو تربت سے حق و شعور کا نعرہ بلند کرتے ہوئے، بلوچ نسل کُشی کے خلاف مارچ کا آغاز کرتی ہے، تو بلوچ رفقا کی سوشل میڈیا پر محدود موجودگی اسی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، پاکستانی عوامی رائے کو متاثر کرنے اور اُنہیں بلوچستان میں ہونے والی پنجابی فوج کی کارستانیوں کا اصل چہرہ دکھانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ گوکہ مارچ بلوچستان کے حدود تک مختلف شہروں اور کوچوں میں ہزاروں افراد کو موبلائز کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے، لیکن یہ مین اسٹریم پاکستانی میڈیا کے لئے شجر ممنوعہ ہی بنی رہتی ہے۔ حالات اُس وقت کروٹ بدلتے ہیں، جب تونسہ میں بلوچ آبادی کا جم غفیر ماہ رنگ بلوچ اور لاپتہ افراد کے حوصلہ مند لواحقین کو ویلکم کرنے پہنچتی ہے، اور پھر اسلام آباد میں وہ شبِ خون، جب بلوچ عورت کی چادر اسلام آباد کی سڑکوں پر گھسیٹی گئی، یہ وہ واقعات ہیں، جہاں سے بلوچوں کا یہ نوحہ مین اسٹریم میڈیا کے کونے کھدروں سے نکل کر ہیڈلائنز میں اپنی جگہ بناتی ہے۔ اور یہاں سے ہوتے اس ابھرتی بلوچ تحریک کو عالمی میڈیا سمیت، مختلف عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں تک رسائی ملتی ہے۔
یہاں سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ دو چیزیں سیکھتی ہے:
۱- عوامی رائے کو اپنے حق میں لانے کی خاطر سوشل میڈیا پر کنٹرول سمیت اپنی موجودگی میں حد درجہ اضافہ کی ضرورت ہے۔
۲- اور بلوچ یکجہتی کمیٹی، اب چند سرپرے نوجوانوں کی شرارت سے بڑھ کر ایسی عوامی تحریک بن چکی ہے، جس کا خاتمہ کئے بغیر بلوچستان میں اپنے جرائم کا بازار گرم رکھنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اگر بہ زور طاقت اُسے روک نہ سکی، تو اُس کے خلاف ایک پر زور آوازِ مزاحمت ضرور اٹھائے گی۔
بعض روایت پسند بلوچ رفقا اس بات پر قائم ہیں، کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کو بلوچ نسل کشی کے خلاف مارچ نکالنے، یا گوادر میں راجی مچی منعقد کرنے اور بعدازاں جعفر ایکسپریس کے بعد کوئٹہ میں دھرنا دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن یہاں ہمیں ہر ایک واقعہ، اُس کے پیچھے کی حکمت اور اُس کے اثرات کو بغور پرکھنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ ہم جان سکیں یہ واقعات و اعمال بلوچ قومی تحریک کے حق میں کس تک مفید اور ناگزیر رہے ہیں۔ 2013 کے کریک ڈاؤن کے بعد بلوچستان میں ایک ایسی سیاسی خلا پیدا ہوتی ہے، جس کے سبب ایک مستقل خاموشی بلوچستان پھیلتی ہے، اور یہی خاموشی آہستہ آہستہ بلوچ عوام کے دل میں ایک مستقل خوف کی صورت جگہ کرتی ہے۔ اور خوف ایک ایسی لاعلاج بیماری ہے، کہ جس کا اگر وقت پر علاج نہیں کیا گیا، تو انفرادی اور اجتمائی حوالے سے وہ انسان اور قوموں کو impotent بنا دیتی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی یہیں تحریک بلوچ عوام کے دل سے اس خوف کو ختم کرتے ہوئے ہر بلوچ فرزند کو ریاست اور اُس کی فوج کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نعرہِ حق بلند کرنے کا سبق دیتی ہے۔ اور اس سے بڑھ کر اور کوئی achievement کسی بھی سیاسی ادارے کے لئے ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ اپنی قوم سے دشمن کے ڈر کو ختم کرنے میں کامیاب ہو۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کوہِ سلیمان سے لیکر کراچی اور کراچی سے لیکر تربت تک، یہ تحریک بلوچ سرزمین کے ہر خطے اور ہر شہر کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
زارِ شاہی کے روس میں جب مزدوروں کے ٹریڈ یونینز کی جانب سے 1905 میں جنرل اسٹرائک کی کال آتی ہے، تو بالشویک پارٹی کے بعض اراکین و رہنما اسے خودکشی قرار دیکر حالات اور وقت کا رونا روتے ہوئے اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں، لیکن لینن آگے آکر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں نہ صرف اس اسٹرائک میں حصہ لینے کی ضرورت ہی، بلکہ اس کو لیڈ کرنا چاہیے اور تاریخ گواہ ہے، کہ بے شک یہ اسٹرائک زارِشاہی کی حکومت کو گرا نہ سکی، لیکن یہیں بالشویک پارٹی کو نہ صرف روس کی عوام میں مقبولیت ملی بلکہ اُس کی ممبرشپ بھی آٹھ ہزار سے بڑھ کر اسٹرائک کے اختتام تک اسی ہزار تک پہنچ گئی۔ اور بقولِ روزا لکسمبرگ، اگر 1905 کی جنرل اسٹرائک نہ ہوتی، تو 1917 کا انقلاب کبھی ممکن نہ ہوتا۔
اسی طرح اگر ہم بلوچ عوام کو بلوچ تحریک کا سرگرم حصہ بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں نہ صرف اس تک رسائی کی ضرورت ہے بلکہ اُسے حوصلہ اور اُمنگ دینے کے علاوہ ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جس کی فضا میں بغاوت کی بو ہو۔ اور بغیر از وسعت گیر موبلائزیشن و اگیٹیشن، یہ ممکن نہیں۔ لیکن ایک چیز جو یہاں پر سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وہ یہ کہ اس وقتی ابھار و جذبہ کو ہم کس طرح نظریاتی سانچے میں ڈھالنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اور یہیں سب سے مشکل کام ہے۔
لیکن یہاں پر بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھتا نظر آئے گا کہ اگر یہ تحریک اُس خوف کو ختم کر چکی ہے، تو آج ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت دیگر رہنماؤں کی بندش پر یہ خاموشی کیسی؟ اگر بلوچ اکھٹے ہوچکے ہیں تو آج تربت جیسے شہر میں ڈاکٹر ماہ رنگ جیسی آواز کی خاطر ریلیوں میں افراد صرف چند کیوں؟ اس تضاد کی وجہ ڈھونڈنے اور توجیہہ نکالنے میں ہمیں ہماری کہانی میں تھوڑا پیچھے جانے کی ضرورت ہے۔ لانگ مارچ کے بعد ریاست یہ فیصلہ کرلیتی ہے، کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اب قابلِ قبول نہیں، اور اُس کو کچھلنے کی خاطر راہیں ہموار کرنا شروع کردیتی ہے۔ پاکستان اُتنی بھی بےوقوف نہیں، جتنا بیشتر تصور کیا جاتا ہے، بی۔وائی۔سی کی تحریک کو قیادت سمیت دبانے کی خاطر وہ سیدھا ڈاکٹر ماہ رنگ پر حملہ آور نہیں ہوتا، بلکہ آہستہ آہستہ اپنی راہیں ہموار اور بی۔وائی۔سی کی راہیں تنگ کرنے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ چین کے ساتھ بیٹھک کے بعد اپریل 2024 کو آپریشن عزمِ استحکام کا اعلان کرتی ہے، تو میڈیا میں دیے گئے بیانات کے مطابق یہ آپریشن تین پہلؤں کو سمیٹے گی؛
* اول سوشل میڈیا پر پاکستان یا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کو کنٹرول کرنے کی خاطر فائروال نسب کرنا، اور اپنے بیانیہ کو جگہ دینے کی خاطر اپنی سوشل میڈیا ونگ کو مزید مستحکم کرنا۔
* دوئم پاکستان ریاست کے خلاف سیاسی محاذ کھولے ہوئے گروہوں “پی۔ٹی۔ایم، بی۔وائی۔سی۔سی، پی۔ٹی۔آئی” کی بیخنی کرنا۔
* اور سوئم پاکستان کے خلاف سرگرم مسلح تنظیموں کے خلاف کاروائیوں میں تیزی لانا۔
یہ تینوں وہ نکات ہیں، جنہیں سرفراز بگٹی گزشتہ چند عرصے سے مسلسل رٹے جارہے ہیں۔ اور جن کو لگتا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے خلاف کریک ڈاؤن مارچ 2025 کی کارستانی ہے، تو وہ جاکر گزشتہ واقعات کو ذرا غور سے دیکھیں۔ پاکستانی میڈیا سمیت مین۔اسٹریم میڈیا میں مسلسل بی۔وائی۔سی کو مسلح تنظیموں کی پراکسی قرار دینا، ڈی۔جی آئی۔ایس۔پی۔آر کی جانب سے بی۔وائی۔سی کے خلاف بیانیہ سازی، انگنت ایف۔آئی۔آرز اور جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ محسوس کرتی ہے، کہ وہ اب ایک حد تک پنجاب و اسلام آباد میں رہنے والی آبادی کے دل سے بلوچوں کی اس تحریک کے خاطر ہمدردی کو ختم کرچکی ہے، تو بلوچستان میں ایک خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے کی خاطر ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدگیوں میں تیزی لانا۔ تاکہ ایک ایسا ماحول پیدا ہو، جہاں لوگ اپنے گھروں سے نکلنے میں خوف محسوس کریں، اور اسی خوف کو ہوا دیتے ہوئے، بلوچستان میں ایک افراتفری کو جنم دینا۔
اب ریاست اپنا جال پھینک چکی ہے، اور وہ صیح وقت کے انتظار میں ہے کہ کب اس تحریک کو دبوچے۔ اور اسی درمیان ہوتا ہے جعفر ایکسپرس کا واقعہ، ایک ایسا واقعہ جس کو استعمال کرتے ہوئے، سب سے پہلے بلوچوں کے خلاف زمیں ہموار کی جاتی ہے۔ اور پھر بی۔وائی۔سی کو اسی درمیان کھینچنے کی خاطر پہلے گل زادی بلوچ کو اغوا کرکے اُس پر تشدد کرنے کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور جب بی۔وائی۔سی اس امر کے خلاف پریس کانفرنس کرتی ہے، تو بیبگر بلوچ کو اُن کے بھائی سمیت اغوا کیا جاتا ہے۔ جارج آرویل کے ناول میں تصوراتی ریاست ایک اور حربے کا استعمال کرتی ہے، اور وہ یہ کہ ایک جھوٹ جب مسلسل دہرایا جائے، تو وہ آہستہ آہستہ سچ بن کر جگہ گھیرتی ہے۔ پاکستانی میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ اسی حربے کو استعمال کرتے ہوئے بی۔وائی۔سی کی پریس کانفرنس اور پھر بیبگر بلوچ کی خاطر ہونے والے احتجاج کو جعفر ایکسپریس کے واقعے اور سول ہسپتال میں رکھی ہوئی بلوچ فرزندوں کی لاشوں سے جھوڑتی ہے۔ گوکہ اسی وقت سول ہسپتال کوئٹہ میں بھی لاشوں کی شناخت کا حق مانگنے کی خاطر لواحقین کی جانب سے دھرنا دیا جا رہا ہوتا ہے، لیکن اُس دھرنے کی راہنمائی بلوچ خلق کر رہی ہوتی ہے اور ناکہ بی۔وائی۔سی۔ اور پھر وہ کھلا جھوٹ کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان سول ہسپتال کوئٹہ سے لاشیں اپنے ساتھ لیکر گئے ہیں۔ یہ سب وہ واقعات ہیں، جو ہماری آنکھوں اور کیمرے کے سامنے ہوئی ہیں، لیکن ریاستی میڈیا کے مسلسل پروپگینڈہ اور جھوٹ در جھوٹ کے سبب پنجاب و اسلام آباد میں بیٹھی عوام تو اپنی جگہ، اب سادہ بلوچ بھی اسے حقیقت مان کر تعویذ کئے ہوا ہے۔
ہاں، یہاں اگر بلوچ یکجہتی کمیٹی سے کوئی کمزوری رہی ہے، تو وہ ہے بیانیہ سازی کی لیکن یہ مسئلہ صرف یکجہتی کمیٹی کا نہیں، بلکہ پورے بلوچ تحریک کا ہے، کہ وہ اس منظم ریاستی نیٹورک کو شکست دیتے ہوئے، حق و سچ کی آواز کو کس طرح عوام تک رسائی دے گی۔ اور رہی بات، دوسری وجہ کی تو وہ ہے احتجاجی عمل کے normalization یا routinization کی۔ دنیا بھر میں ہمیں جتنی بھی احتجاجی تحریکیں سرگرم ملی ہیں، تو اُنہیں یہ مسئلہ کسی نہ کسی موڑ پر ضرور درپیش رہی ہے۔ احتجاجوں میں گھٹتی تعداد کمیٹی کی کمزوری نہیں، بلکہ احتجاجی تحریکوں کی جبلت ہے۔ لیکن اس کو پلٹا بھی جا سکتا ہے، اور وہ صرف ترقی پسند سوچ کے ذریعے ممکن ہو سکتی ہے، یعنی موبلائزیشن اور agitation کی خاطر نئے طریقہ کار ڈھونڈ کر۔ اور انہی طرزکاروں پر عمل کرکے ہم عوام میں نا صرف ایک نیا حوصلہ پیدا کرسکتے ہیں، بلکہ آہستہ آہستہ اُنہیں مستقلاً، اس تحریک سے جھوڑے رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔
ڈاکٹر ماہ رنگ اور دیگر رہمناؤں کی گرفتاری کے بعد بعض جگہ ہمیں یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ اب بی۔وائی۔سی ختم ہوچکی، اور اب یہ تحریک دیگر واقعات کی طرح ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ تحاریک میں اتار چھڑاؤ ایک لازمی امر ہے، اور ہم اس سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم ایک ہی ڈگر پر چلیں اور کوئی ہمیں کچھ نہ کہے، کیونکہ یہاں ہمارے مخالف ایک ریاست بھی کارفرما ہے، اور وہ اپنی ایڑھی چھوٹی کا زور ہمیں ناکام کرنے کی خاطر لگا رہی ہے۔ جیل و گرفتاری ہر اُس سیاسی تحریک کا حصہ رہی ہیں، جس نے ظلم کے خلاف یا کسی بھی جابر ریاست کے خلاف آواز اٹھائی ہو۔ نیلسن منڈیلا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ہم دور نہیں جائیں، بلکہ برطانوی ہندوستان میں کانگریس کی ساری لیڈرشپ اپنی آدھی عمر انگریز سرکار کے جیل میں گزار چکی ہے، وہ جواہر لال نہرو ہوں، موہن داس گاندھی یا مولانا ابلکلام آزاد۔ گرفتاری و جیل سے قطعاً مراد یہ نہیں کہ اب تحریک ختم ہوچکی، یہ ریاست کی نیت ہے کہ وہ ہمیں یہ باور کراکر مایوسی کی ایک ایسے دلدل میں پھنسائے جہاں سے نکلنا مشکل ہو۔ ہاں، یہ اس تحریک میں ایک نئے باب کا آغاز ضرور ہے، اب اہمیت اس بات کی ہے کہ بی۔وائی۔سی کی لیڈرشپ اس منجھدار سے اپنی کشتی کو کیسے نکالتی ہے، اور یہ کام آسان نہیں ہوگا، لیکن کس نے کہا ہے کہ ظالم کے خلاف کلمہِ حق بلند کرنا آسان ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔