جہدِ مسلسل کی پہچان – سنگت قاضی
تحریر: سعد زہری
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ لوگ چلے جاتے ہیں، مگر ان کے لفظ، ان کا حوصلہ، ان کا عزم ہماری سانسوں میں، ہمارے راستوں میں، ہماری جدوجہد میں گونجتا رہتا ہے۔ سنگت قاضی انہی لوگوں میں سے ایک تھا۔ وہ صرف ایک فرد نہیں، ایک فکر، ایک استاد، اور ایک انقلابی وجود تھا جو قربانیوں کی زمین پر امید کا بیج بویا کرتا تھا۔
قاضی ایک عظیم رہنما تھا مگر اس کی عظمت اس کے القابات میں نہیں، اس کی عاجزی میں تھی۔ ایک مہربان دوست، جو دکھ میں کندھا دیتا تھا، ایک پُرعزم ساتھی، جو ہر شکست میں بھی فتح کی کرن ڈھونڈتا تھا، ایک سنجیدہ فکر رکھنے والا ہمسفر جو خوابوں کو صرف دیکھتا نہیں تھا، اُن کے لیے لڑتا بھی تھا۔
وہ ہمیشہ کہتا تھا: “ہمیں اپنی ذات کو جدوجہد پر کبھی غالب نہیں آنے دینا۔ ہم جو قربانیاں دے رہے ہیں، وہ اس صبح کے لیے ہیں جو ہمارے بچوں کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر حریت کے اجالے میں لے جائے گی۔ ساتھیوں کی شہادتیں ہمیں توڑتی نہیں، ہمیں جوڑتی ہے۔ ہمیں اپنے وجود کی اصل سے ملا دیتی ہے۔”
قاضی کہتا تھا: جو ساتھی ہم سے بچھڑ گئے وہ ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ اب ہماری ذمے داری ہے کہ ان کے خوابوں کو حقیقت بنائیں۔ ہمیں اپنے لوگوں، اپنی قوم، اپنی شناخت کو خودی سے جوڑے رکھنا ہے۔”
ہم جب خاموشی سے، رات کے اندھیروں میں اپنے گھروں سے نکلے تھے، ہم نے صرف گھر نہیں چھوڑا تھا۔ ہم نے اپنی عام زندگی، اپنے ماں باپ کے خواب، اپنے بچپن کے کمرے، اپنی بہنوں کے چہرے، اپنے دوستوں کے قہقہے — سب کو پیچھے چھوڑا تھا۔ ہم اس امید کے سہارے نکلے تھے کہ ہم غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر ایک نئی صبح کو جنم دیں گے۔
قاضی کہا کرتا تھا: ہم وہ لوگ نہیں جو صرف ایک جوڑا لے کر نکلے تھے آج ہماری پہچان ہماری قربانیوں میں ہے، ہماری شناخت ہمارے زخموں میں ہے، اور ہماری زبان ہمارے شہیدوں کی خاموش صداؤں میں ہے۔ ہمیں کبھی یہ نہیں بھولنا کہ آج ہم عام نہیں رہے۔ ہم اب اپنے لوگوں کے خوابوں کے محافظ بن چکے ہیں۔”
قاضی ایک استاد تھا۔ لیکن وہ صرف کتابوں کا علم نہیں دیتا تھا، وہ وقت دیتا تھا، دل دیتا تھا، اور اپنی پوری زندگی وقف کر چکا تھا اس عظیم جہد کے نام۔
ایک دن میں نے اس سے پوچھا: سنگت، یہ برسوں کی قربانیاں، یہ جدائی، یہ جبری گمشدگیاں، ساتھیوں کے مسخ شدہ لاشے،
ماں کی سسکیاں، بہنوں کی بین، سالوں کی ہجرتیں کیا ان سب کا کوئی اختتام بھی ہوگا؟ کیا کبھی روشنی ہم تک پہنچے گی؟”
قاضی نے میری طرف دیکھا، مسکرایا، اور بڑے اطمینان سے کہنے لگا: سنگت، ایک وقت آئے گا جب صرف دو ہی مورچے ہوں گے ایک طرف بلوچ ہوگا، اور وہ سب جو اس کی آزادی کے خیرخواہ ہیں۔ اور دوسری طرف ہوں گے وہ سب جو بلوچ کے دشمن ہیں اور چند وہ بدنصیب غدار جو دشمن کی زبان بولیں گے۔ جب یہ دونوں مورچے آمنے سامنے ہوں گے، تو جان لینا وہی دن انجام کا دن ہوگا وہی اختتام کا دن ہوگا ۔ وہاں سے یا غلامی مکمل ختم ہوگی، یا سب کچھ راکھ میں دفن ہو جائے گا مگر جھکنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔”
آج قاضی ہم سے رخصت ہوا لیکن وہ ہمیں اپنے انقلابی خوابوں کے قریب لا کر گیا ہے۔ وہ چلا گیا، مگر اس کی سوچ، اس کی رہنمائی، اس کی باتیں آج بھی ہمارے سفر کو روشن کرتی ہیں۔ اندھیری راتوں میں، جب شک اور تھکن دل کو جکڑ لیتے ہیں، تب قاضی کی آواز ہمیں یاد آتی ہے جیسے کوئی مشعل ہو جو ہر کٹھن موڑ پر ہمیں سمت دکھا دے۔
قاضی نہیں گیا وہ ہمارے اندر ہے، ہماری یادوں میں، ہماری قسموں میں، اور ہمارے ہر اس نعرے میں جو ہم چٹانوں سے ٹکرا کر بلند کرتے ہیں۔
سنگت قاضی زندہ ہے ہماری جدوجہد میں، ہمارے خوابوں میں، اور ہر اس صبح میں جو ہم فتح کریں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔