تین میجر رینک افسران کی ہلاکت – ٹی بی پی اداریہ

188

تین میجر رینک افسران کی ہلاکت

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان میں گزشتہ دو ہفتے پاکستانی فوج کے لیے نہایت ہلاکت خیز ثابت ہوئے ہیں۔ ضلع آواران کی تحصیل جھاؤ میں بلوچ لبریشن فرنٹ کے گھات لگائے گئے حملے میں میجر سید ربنواز طارق مارے گئے، جبکہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں جبل نور کے مقام پر بی ایل اے کے ایس ٹی او ایس اسکواڈ کے مقناطیسی بم حملے میں فوج کے میجر انور کاکڑ ہلاک ہوئے۔ اسی طرح ضلع مستونگ کے پہاڑوں میں بلوچ لبریشن آرمی کے مزاحمت کاروں اور پاکستان فوج کے مابین طویل جھڑپوں میں فوج کے میجر زید سلیم سمیت متعدد اہلکار مارے گئے۔

بلوچستان کی آزادی کے لیے سرگرم مسلح تنظیموں کے منصوبہ بند حملوں میں شدت آنے کے بعد پاکستان فوج کے جانی نقصان میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے، اور بلوچستان کی اہم شاہراہیں بھی غیر محفوظ ہوچکی ہیں۔ اس کی تازہ مثال پاکستان کی وزارتِ داخلہ کا یہ فیصلہ ہے کہ شیعہ زائرین کے لیے زیارتِ اربعین کے مقصد سے ایران اور عراق جانے کے لیے بلوچستان کے زمینی راستے کو غیر محفوظ قرار دے کر اس پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ، وزارتِ داخلہ، بلوچستان حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں کے اس مشترکہ فیصلے سے واضح ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر فوجی جانی نقصان اور بلوچ مزاحمت کاروں کے منصوبہ بند ہلاکت خیز حملوں کے بعد پاکستان کے فوجی ادارے بلوچستان کی اہم شاہراہوں پر اپنی رٹ قائم رکھنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔

میجر رینک کے افسران کی ہلاکت بلوچستان میں سرگرم مسلح تنظیموں کی منظم طاقت اور انٹیلی جنس صلاحیت کا کھلا ثبوت ہے۔ یہ ہلاکتیں نہ صرف اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ مزاحمت کار اب فوجی درجہ بندی میں درمیانی سطح کے افسران کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ یہ بھی کہ ان کے حملے محض وقتی کارروائیاں نہیں بلکہ طویل منصوبہ بندی اور درست معلومات پر مبنی ہیں۔ ایسے حالات میں ریاست کا یہ دعویٰ کہ بلوچستان میں مزاحمت کاروں کا اثر محدود ہے، زمینی حقیقت سے کٹ چکا ہے۔ تین میجر رینک افسران کی ہلاکت واضح پیغام ہے کہ مسلح تنظیمیں نہ صرف اپنی کارروائیاں وسعت دے چکی ہیں بلکہ وہ فوجی ڈھانچے پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں بھی آچکی ہیں۔