تیل کے ڈرم، چیک پوسٹیں اور بھتہ: تیل کے کاروبار کرنے والوں کی کرب ناک کہانی – آصف بلوچ

420

تیل کے ڈرم، چیک پوسٹیں اور بھتہ: تیل کے کاروبار کرنے والوں کی کرب ناک کہانی

تحریر: آصف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مغربی اور مشرقی بلوچستان کے درمیان کھینچی گئی سرحد کبھی صرف ایک لکیر نہ تھی وہ ایک سانس تھی، جو ہزاروں گھروں میں چولہا جلاتی تھی۔ زامیاد گاڑیاں، گرد آلود سڑکیں، پسینے میں بھیگی پیشانیاں اور تیل سے بھرے ڈرم، یہ سب کچھ ایک غیر اعلانیہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھے۔ اس راستے پہ چلنے والا ہر ٹرانسپورٹر جانتا تھا کہ خطرہ موجود ہے، مگر راستہ کھلا ہے، اور راستے کا مطلب تھا روٹی۔

لیکن اب یہ راستہ فقط فاصلہ طے کرنے کا عمل نہیں رہا۔ ہر کلومیٹر ایک ادھورے نظام کی قیمت، ماضی کی وہ سادہ تجارت اب طاقت، کرپشن اور بے بسی کی مقتل گاہ بن چکی ہے۔

اسی حقیقت کو پرکھنے کے لیے ہم نے بلوچستان کے اُس سفر کو قلمبند کیا ہے جو گوادر سے کوئٹہ تک تیل لانے والے ٹرانسپورٹرز روز طے کرتے ہیں۔ حکومت دعوے کرتی ہے کہ بھتہ خوری کا خاتمہ ہو چکا، لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہانی سناتے ہیں۔

بلوچستان میں حکومتی دعوے اور زمینی حقائق کے درمیان خلیج مسلسل گہری ہوتی جا رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں بھتہ خوری کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، جبکہ بلوچستان میں بھتہ خوری کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا، لیکن گوادر سے کوئٹہ تک کا سفر کرنے والے ٹرانسپورٹروں کی داستانیں ان دعوؤں کے بلکل برعکس تصویر پیش کرتے ہیں۔

خاص طور پر تیل سے لدی زامیاد گاڑیوں کے لیے یہ سفر محض فاصلہ طے کرنے کا عمل نہیں، بلکہ ہر چیک پوسٹ پر ایک نیا مطالبہ، ایک نئی رکاوٹ اور ایک نیا بھتہ دینے کا امتحان بن چکا ہے۔

سرکاری وردی پہنے اہلکاروں سے لے کر سادہ لباس میں موجود افراد تک، سب ایک طویل زنجیر کی صورت اس نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔ پولیس، لیویز، ایکسائز، کسٹم، ایف سی اور حتیٰ کہ سادہ لباس میں ملبوس عام افراد تک اس “بھتہ مافیا” کا حصہ بن چکے ہیں۔

بلوچستان کے علاقے گوادر سے لے کر کوئٹہ تک کے سفر میں ایک زامیاد گاڑی، جو تیل لے جا رہی ہو، کو تقریباً دو درجن کے قریب مختلف چیک پوسٹوں پر روک کر مختلف سرکاری و غیر سرکاری عناصر کی جانب سے بھتہ دیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر ایک گاڑی سے 56 ہزار روپے سے زائد کی رقم لی جاتی ہے۔

سفر کا آغاز گوادر سے ہوتا ہے، لیکن یہاں پہلے ہی مرحلے پر پولیس اور کسٹم کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے گوادر پولیس کی جانب سے 100 روپے لیے جاتے ہیں، جس کے بعد گوادر کسٹم اہلکار 5,000 روپے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تھوڑی ہی دور جا کر دوبارہ گوادر پولیس کا ایک اور ناکہ آتا ہے جہاں مزید 1,500 روپے دینے پڑتے ہیں۔ گوادر ایکسائز 1,000 روپے اور گوادر لیویز 500 روپے الگ سے وصول کرتے ہیں۔

گوادر کے بعد دشت کا علاقہ آتا ہے جہاں لیویز اہلکار 2,000 روپے وصول کرتے ہیں۔ تربت میں داخل ہوتے ہی پولیس کے لیے 500 روپے، ایکسائز کے لیے 2,000 روپے اور کسٹم کے لیے 4,000 روپے دینے ہوتے ہیں۔

تربت سے ہوشاب کے درمیان پولیس اور لیویز 200 روپے لیتے ہیں، جبکہ بالگتر سے پنجگور کے درمیان یہ رقم 2,000 روپے ہو جاتی ہے۔ پنجگور شہر میں صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے جہاں دو سول افراد بالاچ (نیشنل پارٹی کے رہنما و صوبائی اسمبلی کے ممبر رحمت صالح کے داماد) اور زابد بالترتیب 2,000 اور 1,000 روپے کا بھتہ لیتے ہیں۔

پنجگور سے سوراب جاتے ہوئے لیویز اور پولیس 2,500 روپے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایکسائز اور کسٹم الگ الگ 2,000 اور 4,000 روپے لیتے ہیں۔ اس پورے حصے میں سرکاری وردی میں ملبوس افراد کا کردار سب سے نمایاں ہوتا ہے۔

بسیمہ لیویز 1,000 روپے لیتے ہیں، جبکہ نال لیویز کی جانب سے سب سے بڑی رقم یعنی 6,600 روپے طلب کی جاتی ہے۔ اس کے بعد خضدار میں لیویز و پولیس 300 روپے وصول کرتے ہیں۔

سوراب کے مقام پر پولیس، کسٹم اور ایکسائز کے مشترکہ طور پر 6,000 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ قلات کے قریب ریج چوکی پر لیویز و پولیس مزید 3,000 روپے لیتے ہیں۔ منگچر میں ایف سی اہلکار 5,000 روپے کا تقاضا کرتے ہیں، اور آخر میں کوئٹہ شہر میں داخلے پر پولیس 1,000 روپے کا ’استقبالیہ‘ بھتہ لیتی ہے۔

مجموعی رقم: 56,200 روپے فی گاڑی

اس تناظر میں جب ہم نے ایک ٹرانسپورٹر سے بات کی تو تربت سے تعلق رکھنے والے ایک ٹرانسپورٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا۔ “ہر چوکی پر ایک نیا مطالبہ ہوتا ہے۔ کوئی پولیس والا کہتا ہے ’پانی پلاؤ‘، کوئی لیویز والا ’چائے‘ مانگتا ہے، لیکن سب کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے بھتہ دیں نہیں تو گاڑی بند کر دی جائیگی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ صرف چند افراد تک محدود نہیں بلکہ پورا ایک نیٹ ورک معلوم ہوتا ہے جس میں پولیس، لیویز، ایکسائز، کسٹم، ایف سی اور بعض جگہوں پر عام شہری بھی ملوث ہیں۔

حاصل دستاویزات اور ٹرانسپورٹرز کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق، گوادر، تربت، پنجگور، نال، سوراب، قلات، اور کوئٹہ سمیت 23 مقامات پر بھتہ لیا جاتا ہے۔

مقامی سطح پر یہ تاثر بھی بڑھ رہا ہے کہ بھتہ خوری صرف “چند اہلکاروں” کی کرپشن نہیں بلکہ ایک مربوط نظام کا حصہ ہے جو نچلی سطح سے لے کر بالا ترین سطح تک پھیلا ہوا ہے۔

ایک مقامی سیاسی کارکن نے بتایا کہ یہ صرف گاڑیوں کا مسئلہ نہیں، یہ عوام کے ریاست پر اعتماد کا سوال ہے۔ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے خود قانون شکنی کریں، تو عوام کہاں جائیں؟”

اس پہ جب ہم نے ٹرانسپورٹ سے وابسطہ افراد سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں وسائل کی کمی، بدامنی، اور معاشی بحران کی صورت میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ ایک بڑی گزر بسر کا ذریعہ ہے، لیکن اس پر عائد یہ غیر رسمی ‘ٹیکس’ اس شعبے کو مفلوج کر رہا ہے۔

گوادر سے کوئٹہ تک تیل سے لدی ایک معمولی زامیاد گاڑی کا سفر، ریاستی رٹ، قانون کی بالادستی اور شفاف طرزِ حکمرانی پر کئی سوالات چھوڑ رہا ہے۔

بلوچستان دو دہائیوں سے جنگ زدہ ہے اور باقاعدہ معیشت وجود نہیں رکھتا جبکہ لاکھوں لوگوں کا معاش افغانستان اور ایران کے بارڈز کی صورت میں وابستہ ہے جس کے سبب ایک غیر رسمی معیشت وجود میں آیا ہے ، تاہم یہ کاروبار بھی پاکستان اور ایران کے سیکیورٹی فورسز کے حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔ وقتاً پہ وقتاً اِن ممالک کے سرحدی اہلکاروں کے فائرنگ سے دسیوں عام لوگ مارے گئے ہیں جو سرحدی کاروبار سے وابستہ تھے جبکہ پاکستان نے سرحدی تجارت پر پابندیاں لگائے ہیں جس کی وجہ سے کرپشن  پورے نظام میں سرائیت کرگیا ہے اور اس کرپشن میں بلاواسطہ یا بلواسطہ  سیاست دان، سول انتظامیہ، اور فوج ملوث ہیں۔

بلوچستان میں جنگ سے ایسے عناصر بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں جنہیں جنگ آزادی کے مسلح تنظیموں کے خلاف صف آرا کیا گیا جو بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ کے نام سے جانے جاتے ہیں، فوج کی ایما سے یہ لوگ باڈر کے کاروبار  سے وابستہ عام لوگوں سے بھتہ حاصل کررہے ہیں جس کا بڑا حصہ فوج کے اہلکار وصول کرتے ہیں۔

اس سرحدی کاروبار میں عام افراد اپنی زندگی داؤ پر لگا کر صرف اتنا کماتے ہیں کہ اپنا گھر چلا سکیں لیکن پاکستان کے مختلف ادارے اس کاروبار سے لاکھوں کما رہے ہیں، تاہم عام لوگ بھتہ دینے کے باجود محفوظ نہیں ہیں۔ ان کے کاروبار پر قدغنیں بھی ہیں اور ریاستی ؤ غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں ظلم کے بھی شکار ہیں۔

بلوچستان میں معیشت کے دوسرے ذرائع محدود ہیں اور غیر رسمی معیشت میں عام کاروباری افراد ایران اور پاکستان کے طاقتوروں کے مفادات حاصل کرنے کے کھیل میں اپنا ذریعہ معاش کھو رہے ہیں اور معاشی بھنور میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ ان کے لیے کوئی راستہ ہی نہیں بچا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔