تنظیمی رہنماؤں کو قید میں رکھنے کی قانونی مدت مکمل ہونے کے باوجود، وہ گزشتہ 15 روز سے غیر قانونی و غیر آئینی طور پر حراست میں ہیں۔ بی وائی سی

31

‏بلوچ یکجہتی کمیٹی کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، مرکزی رکن بیبگر بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، کارکنان گلزادی بلوچ، بیبو بلوچ، اور معروف سیاسی شخصیات ماما غفار اور کامریڈ عمران بلوچ کو تین ماہ قبل کسی قانونی جواز کے بغیر گرفتار کیا گیا۔ انہیں “مینٹیننس آف پبلک آرڈر” (3MPO) کے تحت قید میں رکھا گیا، جس کی مدت ہر ماہ غیر قانونی طور پر بڑھائی جاتی رہی۔جبکہ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے والد گزشتہ تین ماہ سے جبری گمشدگی کا شکار ہے۔

‏ترجمان نے کہا ہے کہ ایک ماہ بعد کیس کو محکمہ داخلہ (ہوم ڈیپارٹمنٹ) منتقل کیا گیا، اور پھر عدالتی کارروائی مؤخر کرنے کے لیے مسلسل تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔ یہاں تک کہ تین ماہ مکمل ہونے پر بھی، جب 3MPO کی قانونی مدت ختم ہو چکی تھی، ان رہنماؤں کو رہا نہیں کیا گیا۔ 22 جون کو MPO کی مدت ختم ہو گئی، مگر اس کے باوجود 15 روز گزرنے کے بعد بھی نہ ان کی رہائی عمل میں لائی گئی، نہ ہی عدالتی بورڈ تشکیل دیا گیا، اور نہ ہی تنظیم یا اہلِ خانہ کو ان کی قید کے متعلق کوئی قانونی جواز پیش کیا گیا۔

‏انہوں نے کہاکہ جیل سپرنٹنڈنٹ حمیداللہ، آمریت زدہ طرزِ عمل اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف رہنماؤں اور ان کے خاندان کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، بلکہ قانونی دستاویزات پر دستخط کرنے سے بھی انکار کر رہے ہیں، جو کہ واضح طور پر غیر قانونی اقدام اور عدالتی عمل میں رکاوٹ ہے۔ ان کا رویہ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ اور غیر اخلاقی ہے، بلکہ وہ بلوچستان کے روایات کو بھی پامال کررہا ہے۔

‏انہوں نے کہاکہ یہ تمام اقدامات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاست کے پاس ان سیاسی رہنماؤں کو قید میں رکھنے کا نہ کوئی قانونی جواز باقی ہے اور نہ ہی اخلاقی۔ اگر ان کے خلاف واقعی کوئی قابلِ عمل مقدمات موجود ہوتے، تو اب تک قانونی کارروائی مکمل ہو چکی ہوتی۔ MPO کی مدت ختم ہونے کے باوجود قید کو جاری رکھنا انصاف کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

‏مزید کہاکہ اس کے علاوہ، گڈانی جیل میں قید کامریڈ عمران بلوچ کو رہائی کے فوراً بعد دوبارہ گرفتار کر کے ایک بار پھر 3MPO کے تحت قید میں رکھا گیا، جو آئین و قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح بیبو بلوچ کے والد، غفار بلوچ، کو اجتماعی سزا کے طور پر ہدہ جیل کوئٹہ میں قید کیا گیا ہے، جبکہ ڈاکٹر صبیحہ کے والد تاحال جبری لاپتا ہیں، جو ہماری شدید تشویش کا باعث ہے۔

‏بیان کے آخر میں کہاکہ تاہم، یہ بات واضح ہے کہ اس طرح کی گرفتاریاں اور ریاستی مظالم نہ ماضی میں مؤثر ثابت ہوئے ہیں اور نہ مستقبل میں ہوں گے۔ جبر، تشدد اور قانون کی پامالی سے نہ تو عوامی مزاحمت کی آواز دبائی جا سکتی ہے اور نہ سیاسی تحریکوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر ہمارے رہنماؤں کو رہا کیا جائے اور ریاست طاقت و تشدد سے سیاسی تحریکوں کا راستہ روکنے کے اس ناکام تجربے کو فی الفور ترک کرے۔