تربت: ہماری جدوجہد آئینی، جمہوری اور تاریخی بلوچ مزاحمت کا تسلسل ہے۔ ڈاکٹر شلی بلوچ

54

بلوچ وومن فورم کی مرکزی قیادت نے آج تربت پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ریاستی اداروں کی جانب سے گوادر میں منعقد ہونے والی ایک پُرامن کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں، خواتین کی ماورائے آئین گرفتاری، اور سیاسی سرگرمیوں پر جبر کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔

فورم کی رہنماؤں نے بتایا کہ 27 جولائی کو گوادر پریس کلب میں بلوچوں کی سیاسی شرکت، جبری گمشدگیوں، گرفتاریوں اور ریاستی جبر کے خلاف ایک روزہ کانفرنس کا انعقاد طے تھا۔ اس حوالے سے گوادر اور گرد و نواح میں آگاہی مہم، وال چاکنگ، اور عوامی رابطے جاری تھے، تاہم اس آئینی سرگرمی کو روکنے کے لیے اداروں کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ فورم کی خواتین کارکنان کو پولیس نے بغیر کسی قانونی جواز کے حراست میں لیا، وومن پولیس اسٹیشن گوادر منتقل کیا، اور وہاں ان کے ساتھ غیر انسانی، غیر پیشہ وارانہ اور توہین آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔

پریس کانفرنس میں انکشاف کیا گیا کہ دورانِ حراست خواتین پر کانفرنس منسوخ کرنے کے لیے تحریری دباؤ ڈالا گیا، اور انکار پر انہیں زبردستی گوادر سے تربت منتقل کر دیا گیا، جسے فورم نے شہری آزادیوں کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔

فورم کی رہنماؤں نے کہا جب بھی بلوچ خواتین سیاسی شعور کے ساتھ اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں، انہیں غیر رسمی طاقتوں اور غیر مرئی قوانین کے ذریعے خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 27 جولائی کی کانفرنس کا مقصد بلوچوں کی سیاسی شرکت پر ایک جمہوری اور فکری مکالمہ تھا، لیکن ریاستی جبر نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ بلوچستان میں جمہوریت صرف طاقتور طبقات کے لیے مخصوص ہے۔

پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا گیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، اور دیگر سول تنظیمیں اس وقت شدید ریاستی کریک ڈاؤن کا شکار ہیں، جن کے کارکنان کو بغیر وارنٹ حراست میں لیا جا رہا ہے اور سیاسی سرگرمیوں کو قومی سلامتی کے نام پر جرم قرار دیا جا رہا ہے۔

بلوچ وومن فورم نے اعلان کیا کہ ہماری جدوجہد آئینی، جمہوری اور تاریخی بلوچ مزاحمت کا تسلسل ہے۔ ہم اس جبر کے آگے جھکیں گے نہیں، بلکہ اپنی جدوجہد کو مزید مربوط اور منظم انداز میں جاری رکھیں گے۔

فورم نے ریاست سے مطالبہ کیا کہ بلوچوں کو ان کے بنیادی انسانی، سیاسی اور سماجی حقوق دیے جائیں، اور ان کی شہری حیثیت کو تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے عالمی صحافتی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی ضمیر سے بھی اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں جاری جبر کا نوٹس لیں۔

آخر میں بلوچ وومن فورم نے واضح کیا کہ وہ اپنی آئینی جدوجہد اور بلوچ مفاد کے لیے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گی اور جدوجہد کو مزید تیزی سے آگے بڑھایا جائے گا۔