بی وائی سی کے گرفتار رہنماء جیل منتقل، اہلخانہ کو ملنے کی اجازت نہیں

94

زیرِ حراست بلوچ یکجہتی کمیٹی رہنماؤں کو ہدہ جیل سے سول لائنز تھانے منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ملاقات پر پابندی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کو کل 8 جولائی کو ہدہ جیل کوئٹہ سے نکال کر سول لائنز پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا گیا جس کے بعد اطلاعات کے مطابق انکے اہلِ خانہ اور وکلاء کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔

 اس دوران تھانے کے اطراف کا علاقہ مکمل طور پر سیل کردیا گیا ہے اور فورسز اہلکاروں نے عام شہریوں اور میڈیا نمائندوں کو بھی قریبی رسائی سے روک دیا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے رہنماؤں کی ملاقات پر پابندی کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انہیں پولیس حراست میں جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ 

تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہم اپنے رہنماؤں کی جان، تحفظ اور خیریت کے بارے میں شدید فکر مند ہیں موجودہ حالات میں ہمیں اندیشہ ہے کہ انہیں حراست میں شدید تشدد کا سامنا ہو سکتا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ زیرِ حراست رہنماؤں کے اہلِ خانہ کو فوری طور پر ملاقات کی اجازت دی جائے اور ان پر روا رکھے جانے والے غیر انسانی، غیر قانونی اور انتقامی سلوک کو بند کیا جائے۔

ہم تمام انسانی حقوق کے اداروں، وکلاء، صحافیوں، اور شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے پر آواز بلند کریں۔

یاد رہے بی وائی سی رہنماؤں جن میں ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، ان کے والد عبدالوہاب بلوچ، گلزادی بلوچ، شاہ جی صبغت اللہ، اور بیبرگ زہری شامل ہیں کو تین ماہ قبل 3 ایم پی او “مینٹیننس آف پبلک آرڈر” کے تحت اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف کوئٹہ میں جاری احتجاجی دھرنے کی قیادت کررہے تھے۔

تین ماہ تک ہدہ جیل کوئٹہ میں قید رہنے کے بعد گذشتہ روز 8 جولائی کو ان کے خلاف 3 ایم پی او کی مدت ختم ہونے والی تھی اور اسی دن ایک عدالتی جائزہ بورڈ کے اجلاس کی توقع کی جا رہی تھی تاکہ ان کی نظر بندی کا قانونی جائزہ لیا جا سکے۔ 

تاہم اجلاس سے چند گھنٹے قبل اچانک ایم پی او آرڈر ختم کردیا گیا اور تمام رہنماؤں کو انسدادِ دہشتگردی کی عدالت میں پیش کرکے دہشتگردی کے الزامات کے تحت ان کے خلاف مقدمات قائم کر دیے گئے۔

اس دوران پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ان رہنماؤں کے خلاف انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں جن کی تفتیش کے لیے مزید وقت درکار ہے عدالت نے پولیس کی استدعا پر تمام افراد کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ان مقدمات کو “من گھڑت، جھوٹ پر مبنی اور سیاسی انتقام کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست بلوچ سیاسی آوازوں کو دبانے کے لیے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ 

تنظیم کے مطابق گرفتار افراد نے کوئی غیر قانونی عمل نہیں کیا بلکہ وہ پرامن احتجاج کے ذریعے جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے۔

اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور دیگر عالمی ادارے پہلے ہی ان گرفتاریوں کو غیرقانونی قرار دے چکے ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ دنوں اپنے بیان میں پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ تمام زیر حراست بلوچ رہنماؤں کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے یا شفاف اور منصفانہ ٹرائل کے تحت ان کے مقدمات کا فیصلہ کیا جائے۔

بی وائی سی نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان رہنماؤں پر تشدد یا کسی بھی قسم کا غیر انسانی سلوک ثابت ہوا تو پورے بلوچستان میں احتجاج کی کال دی جائے گی، تنظیم نے عالمی اداروں سے فوری مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ زیر حراست افراد کے حقوق کو تحفظ دیا جا سکے۔