بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاری اور غیر قانونی حراست کے خلاف احتجاجی دھرنے کا آغاز اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے کر دیا گیا ہے۔
دھرنے میں گذشتہ تین ماہ سے زائد عرصے سے گرفتار بی وائی سی قیادت کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ بلوچستان سے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین بھی شریک ہیں جو سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔
اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے جاری دھرنے کے شرکاء نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بار پھر بلوچستان سے اپنی فریاد لیکر وفاقی دارالحکومت آئے ہیں اس امید کے ساتھ کہ شاید یہاں ان کی آواز سنی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی صدائیں اپنی ہی سرزمین پر دبا دی جاتی ہیں میڈیا پر شدید سنسرشپ عائد ہے اور سچائی کے دروازے بند کیے جاچکے ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران لواحقین نے کہا کہ بلوچستان ایک “اطلاعاتی بلیک ہول بن چکا ہے جہاں صرف وہی بیانیہ گردش کرتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی منظوری سے مشروط ہو جبکہ ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریاستی ادارے بلوچستان میں زمینی حقائق سے نظریں چرا کر ایک مصنوعی امن کا تاثر دے رہے ہیں حالانکہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔
لواحقین نے الزام عائد کیا کہ 19 مارچ 2024 کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے والے سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبگر زہری، گلزادی، بیبو، ماما غفار، شاجی صبغت اللہ، اور عمران بلوچ کو ریاستی اداروں کی جانب سے ایک منظم کریک ڈاؤن کے تحت نشانہ بنایا گیا، بعد ازاں انہیں 3 ایم پی او کے تحت غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور عدالتی احکامات کے باوجود ان کی رہائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
دھرنے کے شرکاء کا کہنا تھا کہ 22 جون کو 3 ایم پی او کی مدت ختم ہونے کے باوجود گرفتار قیادت کو مزید 20 دن تک قید رکھا گیا اور پھر 8 جولائی کو بغیر اطلاع کے انہیں دوبارہ گرفتار کر کے انسدادِ دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالت میں جعلی ایف آئی آرز کے تحت 10 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا جس کے بعد سے یہ تمام افراد پولیس کی تحویل میں ہیں لواحقین کو ملاقات کی اجازت نہیں دی جارہی اور وکلا کو قانونی کارروائی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
دھرنے کے شرکاء کا کہنا ہے کہ ہمارے دو مطالبات ہیں پہلا بلوچ سیاسی رہنماؤں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبگر زہری، بیبو، گلزادی، شاجی صبغت اللہ، ماما غفار اور عمران بلوچ فوری طور پر رہا کیا جائے اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بند کیا جائے، اور تمام لاپتہ افراد کو منظرِ عام پر لایا جائے۔
مظاہرین نے پاکستانی میڈیا، وکلا، انسانی حقوق کے کارکنان اور سول سوسائٹی سے اپیل کی کہ وہ ان کی آواز بنیں اور عالمی برادری و اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر بلوچ رہنماؤں کی رہائی یقینی بنائیں تاکہ بلوچستان میں انصاف اور انسانی حقوق کی بحالی ممکن ہو سکے۔