فورسز نے بی وائی سی کے خاتون رہنماء کے گھر پر چھاپہ مارا اور تلاشی لی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی سابق چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے ایک بیان میں ریاستی جبر کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی اداروں سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے مطابق آج شام 7 بجے کے قریب پاکستان کی وفاقی کانسٹیبلری ایف سی نے ان کے گاؤں میں واقع گھر پر بغیر کسی پیشگی اطلاع یا قانونی جواز کے چھاپہ مارا، چھاپے کے دوران اہلِ خانہ کو ہراساں اور دھمکایا گیا۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر صبیحہ کے والد کو تین ماہ قبل فورسز نے گرفتار کرکے لاپتہ کر دیا تھا اور تاحال ان کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی۔
ڈاکٹر صبیحہ کا کہنا ہے کہ ان پر مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی سے لاتعلقی کا اعلان کریں اور خود گرفتاری دے دیں۔
اپنے بیان میں ڈاکٹر صبیحہ نے کہا میرے والد کا واحد ’جرم‘ میرا والد ہونا ہے اور میرا جرم انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف بولنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اجتماعی سزا کا منظم سلسلہ ہے جس کا مقصد ہمیں خوفزدہ کرکے خاموش کرانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ عوام کی پرامن مزاحمت کو ریاست جبری گمشدگیوں جھوٹے پروپیگنڈے اور دھمکیوں کے ذریعے کچلنے کی کوشش کر رہی ہے ہمیں دہشت گرد قرار دے کر مٹانے کی سازش کی جا رہی ہے جبکہ ہم انسانی حقوق کے محافظ ہیں انصاف، سچ اور انسانیت کے لیے آواز بلند کرنا کوئی جرم نہیں۔
انہوں نے بین الاقوامی اداروں خصوصاً ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے، یورپی یونین، سیویکس، آئی سی جے، ریپریو اور فرنٹ لائن ڈیفینڈرز سے اپیل کی کہ وہ اس ریاستی جبر کے خلاف آواز اٹھائیں۔
انکا آخر میں کہنا تھا بلوچستان کا ہر بچہ اس امید کے ساتھ پروان چڑھتا ہے کہ ایک دن اپنے وطن میں امن دیکھے گا اس جدوجہد کو چرانا، دراصل اس امید کو چھیننے کے مترادف ہے اور ہم یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے۔