بلوچ لٹریسی کیمپین کے تحت کانفرنسز کا انعقاد، بلوچستان میں ستر فیصد اسکول بند، شرح خواندگی چالیس فیصد سے بھی کم ہے – بساک

44

بلوچ لٹریسی کیمپین کے تحت بلوچستان بھر میں جاری تعلیمی بحران پر کانفرنس منعقد کی گئی۔ بلوچستان میں ستر فیصد سے زائد سکول مکمل بند، شرح خواندگی چالیس فیصد سے بھی کم سطح پہ پہنچ گیا ہے۔ بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی

بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان جو گزشتہ سات دہائیوں سے زبان زد ِعام ہے بے پناہ قدرتی وسائل سے لیکر سیاسی و سماجی مسائل میں گھرا ، ایسا موضوع جس کی حقیقت سے ارباب اختیار منہ چھپاتے ہیں ایک ایسی اندھیر نگری جہاں انسان تو ہیں زندگی وجود رکھتی ہے لیکن کیسے زندہ ہیں یہ حقیقت مثبت امیج کے بے پناہ بیانیے سے گم ہوجاتی ہے جہاں ہرروز اخبار بلند و بالا دعوؤں سے بھرے ہیں وہیں دور کسی علاقے میں کوئی بلوچ خانہ بدوش پانی کی تلاش میں بھٹک رہی ہوتی ہے لیکن خیال کہ ایسی باتیں سننے کی گنجائش باقی نہیں رہی، کیونکہ جب کوئی منصور حق گوئی کا شوق سر پہ چڑھاتا ہے تو یہاں وہ سولی پہ لٹکتا ہے اور گزشتہ سات دہائیوں میں بس یہی بلوچستان کی قسمت رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے اپنی دوسری کونسل سیشن میں بلوچ لٹریسی کیمپین کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد بلوچ عوام میں تعلیمی شعور بیدار کرنے کی کوشش تھی جب تعلیم کا پیغام لیکر ہمارے کارکنان بلوچستان کے طول و عرض گئے تو وہاں حقیقت کچھ اور تھی۔ بلوچستان سماج قدامت پسند ہے بلوچستان کے لوگ پڑھتے نہیں ہیں، بلوچستان میں قبائلی نظام تعلیم کے آگے رکاوٹ ہے جیسے بیانیے دم توڑ گئے اور جب تنظیمی کارکنان نے وہاں کی حالات دیکھی تو تنظیم نے بھی تعلیمی شعور کا کیمپین چھوڑ کر اپنے جدوجہد کو نئی رنگ دینے کی کوشش کی، کیونکہ تعلیم کیلیے تعلیمی اداروں کا ہونا لازم تھا جب تعلیمی ادارے ہوں گے اساتذہ ہوں گے تبھی بچے سکول جائیں گے لیکن بلوچستان کے طول عرض میں جب تنظیمی کارکنان تعلیم کا پرچار کرنے پہنچے تو حقائق یکسر مختلف تھے، سکول نام کا چیز بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں بھوت بنگلوں کے علاوہ کچھ نہ تھے۔

“یہی وہ موقع تھا جب بلوچ لٹریسی کیمپین کیلیے اسکولوں کو ڈیٹا یکجا کرنے اور انہیں میڈیا تک لانے کی جدوجہد کی گئ، گزشتہ چار سالوں سے تنظیم نے بلوچ لٹریسی کیمپین کے زریعے مختلف علاقوں کے سکولوں کا دورہ کیاعوام میں تعلیمی رجحان بڑھانے کیلیے انٹرایکٹو سیشن رکھے گئے اور چار سال بعد بلوچ لٹریسی کیمپین کے توسط سے تنظیم نے ایک بریفنگ کانفرنس رکھی ہے جو اسی پریس کلب میں منعقد کیا گیا اور زمینی حقائق عوام، میڈیا اور مقتدرہ قوتوں کے سامنے لائے گئے۔”

رہنماوں نے کہا کہ بلوچ لٹریسی کیمپین کے زریعے حاصل شدہ اعدادوشمار حیران کن ہیں ایک عام انسان ان پیچیدگیوں کو شاید سمجھ ہی نہیں پاتا نہ ہی اس طرح کے اعدادوشمار اس کے روزمرہ کا حصہ ہیں اس لئے بریفنگ کانفرنس میں ان تمام حقائق سے پردہ اٹھایا گیا، اور تعلیمی بحران کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی، ہم جانتے ہیں کہ بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی اس جدوجہد کو شاید ارباب اختیار میں کوئی پزیرائی نہ مل سکے یا ان کو حل کرنے کیلیے وہ سنجیدہ ہی نہ ہوں، مگر پھر بھی گزشتہ چار سالوں سے جاری اپنی مدد آپ کے تحت جو حقائق تنظیم نے اکٹھی کی ہیں ان کو بلوچستان کے عوام اور میڈیا کے سامنے رکھنا ضروری ہے۔

“گزشتہ چار سالوں کے دوران بلوچ لٹریسی کیمپین کے تحت تنظیم نے ٹیسٹ کیس کے طور پر بلوچستان بھر میں ایک سرووے مہم چلایا اور بلوچستان بھر کے بلوچ اکثریتی علاقوں کے اسکولوں کا دورہ کیا گیا ان کی تصاویر لی گئیں، ان میں موجود سہولیات کا جائزہ لیا گیا، عام عوام کے تاثرات لئے گئے اور انہیں وقتاًفوقتاً میڈیا پہ بھی نشر کیا گیا اسی سرووے کی توسط سے تنظیم نے لیاری کراچی سے لیکر کوہ سلیمان تک، ڈیرہ بگٹی سے لیکر آوران تک سینکڑوں سکولوں کا ڈیٹا یکجا کیا، اور حاصل شدہ نتائج ہم میڈیا اور عوام کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں بلوچ لٹریسی کیمپین کے سرووے کے مطابق بلوچستان بھر میں ستر فیصد سے زائد سکول مکمل طور پر بند پڑے ہیں جبکہ بقیہ تیس فیصد برائے نام فعال ہیں۔ان تیس فیصد سکولز میں سے پچانوے فیصد سکولز میں پانی، بجلی، چاردیواری، وش رومز، کتابیں، جیسے بنیادی سہولیات ناپید ہیں۔”

“اسی طرح حالیہ پاکستان اکنامکس سرووے کے جاری شدہ اعلامیے میں بلوچستان کے تعلیمی صورتحال پہ شائع شدہ انکشافات بھی دل دہلا دینے والے ہیں پاکستان اکنامکس سرووے کے مطابق بلوچستان میں شرح خواندگی بیالیس فیصد، جبکہ ستر فیصد بچے اسکولز سے باہر ہیں جبکہ لڑکیوں کی تعلیمی تناسب کم ترین سطح پہ ہے ہر دس میں سے آٹھ بچیاں سکولز تک پہنچ نہیں پاتیں۔”

انہوں نے کہا کہ بلوچ لٹریسی کیمپین کے تحت منعقد شدہ کانفرنس میں تنظیم کی جانب سے دو سو پچاس سے زائد سکولز کا باقاعدہ ثبوت پیش کیے ہیں جن کے ویڈیوز ڈاکومنٹری، بلوچستان بھر کے اسکولز پہ تنظیم کی جانب جاری شدہ دستاویز جو درجنوں صفحات پہ مشتمل ہے سیکڑوں سکولوں کے تصاویر بھی کانفرنس ہال میں آویزاں کئے گئے جبکہ تعلیمی بحران، بلوچ لٹریسی کیمپین کا آغاز، مقاصد اور حاصل شدہ نتائج کا پریزنٹیشن پیش کیا گیا۔

“تنظیم یہ سمجھتی ہے کہ تعلیمی بحران کا خاتمہ اس وقت ممکن ہے جب گراس روٹ لیول پہ تعلیمی رجحان بڑھانے کیلیے جدوجہد کیے جائیں گراس روٹ لیول سے مراد پرائمری، مڈل اور ہائر سیکنڈری سکول کے سطح پہ تعلیمی سہولیات مہیا کی جائیں، بصورت دیگر تعلیم کے نام پہ ہونے والے حکومتی دعوے محض دعوے ہی رہیں گے جبکہ بلوچستان میں تعلیمی نظام اپنے بنیاد سے ہی تباہی کا شکار ہے گھوسٹ سکولز، داخلہ تناسب میں کمی، اساتذہ کی کمی، سکولز میں اساتذہ اور طلبا میں غیرحاضر رہنے کا تباہ کن رجحان اور اسکی روک تھام کیلیے حکومتی سطح پہ غیرسنجیدگی وہ مسائل ہیں جو تعلیمی تناسب میں کمی کا سبب ہیں ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے ہر دور حکومت محض دعوؤں کی حد تک تعلیم کے نام پہ کرپشن کا راستہ ہموار کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرتی، ہرسال صوبائی بجٹ میں اربوں روپے تعلیم پہ خرچ کرنے کے دعوؤے کیے جاتے ہیں جبکہ بلوچستان میں تعلیمی تناسب ہرگزرتے دن بتدریج گرواٹ کا شکار ہورہی ہے۔”

انہوں نے کہا کہ بلوچ لٹریسی کیمپین کے تحت اعلی تعلیمی سہولیات کیلے بھی جدوجہد کی گئی جسے ہائر ایجوکیشن کمیپین کا نام دیا گیا، ہائر ایجوکیشن کیمپین کے تحت تنظیم نے نصیرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کیلئے آگاہی سیشن سمیت، پرامن احتجاج بھی کئے اس کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی رکنی کیپمس، رخشان ڈویژن کیلیے یونیورسٹی کیمپین، بیوٹمز چلتن کیمپس کے علاوہ وڈھ کیمپس کیلیے جدوجہد کی اور بذریعہ سوشل میڈیا مختلف ادوار میں کیمپین چلائے گئے۔

“بلوچ لٹریسی کیمپین کے تحت بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے بلوچستان بھر میں تعلیمی رجحان کو پروان چڑھانے، عوام میں تعلیم کیلیے آگاہی پھیلانے سمیت صوبائی حکومت کو تعلیمی مسائل کو حل کرنے کیلیے سنجیدگی اختیار کرنے کیلیے سینکڑوں مرتبہ مطالبے کئے گئے لیکن ہمیں انتہائی افسوس کیساتھ یہ بات کرنی پڑرہی ہے کہ مسائل حل کرنا تو دور کی بات، موجودہ تعلیمی ادروں کو زوال پذیر کرنے کیلیے حکومت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔”

“بلوچستان بھر کے تعلیمی ادارے معاشی دیوالیہ پن کا شکار ہیں جن میں سرفہرست بلوچستان کی سب سے بڑی اور قدیم یونیورسٹی بلوچستان یونیورسٹی ہے وہ ادارہ جس سے عوام کی امیدیں وابسطہ تھیں ابھی سال میں چھ مہینے تک بند رہتی ہے اساتذہ اپنی تنخواہ نہ ملنے کا رونا روتے ہیں تو دوسری جانب طلبہ اپنے تعلیم سال ضائع ہونے، جبکہ داخلی سطح پہ بلوچستان یونیورسٹی انتظامی بے ضابطگیوں کا شکار ہے، ایگزامیننشن برانچ اور ایڈمیشن برانچ کرپشن کی اتاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن نہ وائس چانسلر اور نہ ہی کسی اور کو یہ بدعنوانی نظر آتی ہے اور اگر کوئی طلبہ اس پہ بات کرنا چاہے تو وہ انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنتی ہے، تنظیم یہ دعویٰ سے کہتی ہے کہ کوئی بھی شفاف تحقیقی ادارہ بلوچستان یونیورسٹی کے ان دو برانچز کا معائنہ کرے، تو لگ پتہ جائے گا کہ اس دھندے میں کتنے نام نہاد سفید پوش اور اختیار دار لوگ شامل ہیں، ہم یہ دعووے کیساتھ کہتے ہیں کہ گزشتہ کئی سمسٹرز کے نتائج ابھی تک ایگزامینیشن کنٹرولر برانچ نے جاری نہیں کئے، نتائج بدلنے کیلیے لاکھوں روپے بطور رشوت لئے جاتے ہیں طلبہ کے سکالرشپس کے پیسے بطور انٹرسٹ بینکوں میں جمع ہیں داخلہ لینے کیلیے دوران ایک عام کلرکس سے لیکر وائس چانسلر تک لاکھوں روپے بٹورے جاتے ہیں بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ کا اٹینڈنس ریشو کا تحقیق کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ستر فیصد سے زائد اساتذہ اور طلبہ پورے سمسٹر میں کلاس روم کا منہ تک نہیں دیکھتے، لیکن حکومتی رجحان کہاں ہے ۔؟ حکومتی رجحان ان زوال پذیر تعلیمی اداروں کو مزید سیکورٹینایز کرنا، صرف بولان میڈیکل کالج اور بلوچستان یونیورسٹی میں سیکورٹی کے نام پہ کروڑوں روپے خرچ کئے گئے، بولان میڈیکل کالج میں کوئی بھی زی شعور انسان جائے تعلیمی ادارہ کم قید خانہ زیادہ معلوم ہوتا ہے یہی صورتحال دیگر اداروں میں بھی پھیلایا جارہا ہے، ہم حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ آیا سیکورٹینائز کرنے سے تعلیمی تناسب بڑھ سکتی ہے۔؟ پنجروں میں رکھنے سے پیروکار پیدا ہوتے ہیں تخلیق کار نہیں، اگر حکومت اپنے لئے پیروکار پیدا کرنا چاہتی ہے تو اپنا شوق پورا کرلے لیکن اگر تعلیمی اداروں کا مقصد تخلیق کار، پروفیشنل لوگ معاشرے کیلیے تیارکرنے ہیں تو پھر اس نظام کو مکمل طور پر بدلنا ہوگا۔”

رہنماؤں نے کہا کہ بلوچ لٹریسی کیمپین کے زریعے حاصل شدہ نتائج میں سب سے زیادہ وہ علاقے تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں جہاں کے ارباب اختیار اسلام آباد کے پسندیدہ لوگ ہیں سب سے زیادہ سکول نصیرآباد ریجن میں بند پڑے ہیں یا پھر علاقائی وڈیرہ کا زاتی بیٹھک میں بدل چکے ہیں نصیرآباد ریجن کے نام نہاد نمائندے ہمیشہ سے حکومت میں رہے ہیں دوسرے نمبر پرڈیرہ بگٹی ریجن، تیسرے نمبر پر آواران، جبکہ چوتھے نمبر پر پنجگور ریجن اور لسبیلہ میں بھی سکولز بند پڑے ہیں ۔بقیہ بلوچستان کیلیے جہاں لفظ قبائلی گنوار استعمال کیا جاتا ہے یا کہا جاتا ہے کہ قوم پرستوں کیوجہ سے تعلیمی زبوں حالی ہے تو آیا نصیرآباد، ڈیرہ بگٹی اور لسبیلہ میں کونسی کیمبرج یا آکسفوڑد بنی ہے۔؟

“حالیہ حکومتی نمائندے بھی تعلیم کے نام پہ بڑے دعووے کرتے دکھائی دیتے ہیں بیرون ملک بیجھنے کی بھڑکیں مارتے ہیں لیکن یہ دعووئے صرف ان کیلیے ہیں جو سونے کا چمچ لیکر پیدا ہوتے ہیں جبکہ بلوچستان کے ایک عام چرواہے کے بچے کیلیے ایک چٹائی تک میسر نہیں ہوتی۔ بلوچ لٹریسی کیمپین کی توسط سے منعقد شدہ کانفرنس میں تنظیم نے ان تمام حقائق کو میڈیا اور عوام کے سامنے پیش کیا ہے تعلیمی زبوں حالی، سکولز کی حالت زار، اساتذہ کی کمی و غیرموجودگی کو تفصیل سے عیاں کی ہے۔”

بساک رہنماؤں نے کہا کہ اس پریس کانفرنس میں بھی وہی اعدادوشمار، حقائق، اور سفارشات لائے گئے ہیں آخر میں ہم بلوچ عوام سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے علاقوں میں تعلیمی رجحان کو بڑھانے، عوام میں آگاہی پھیلانے سمیت اپنے بچوں کو خود پڑھانے کیلیے ٹیوشن سینٹرز، لائبریریز کا قیام عمل میں لائیں، سرکاری سکولوں میں غیرحاضر رہنے والے اساتذہ کو بلوچی روایات کے مطابق پابند کرنے سمیت، تعلیمی حقوق کیلئے باہر نکلیں، سوشل میڈیا کے زریعے تصاویر اور ویڈیوز نشر کریں، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے لٹریسی کمیٹی تک اپنے اسکولوں کا ڈیٹا پہنچائیں، جبکہ حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بلوچستان بھر میں بند سکولوں کو فعال کرنے، غیرحاضر اساتذہ کیخلاف کاروائی کرنے، خالی اسامیوں کو پُر کرنے سمیت بنیادی سہولیات جیسے کہ کتابیں، چاردیواری، بجلی، پانی اور ٹرانسپوٹ کے سہولیات مہیا کیے جائیں، اعلی تعلیمی اداروں کو سیکورٹینایز کرنے، پروفائلنگ اور ہراسمنٹ کا اڈہ بنانے کے بجائے ان اداروں میں ریسرچ سینٹرکا قیام، سکالرشپس، انتظامی شفافیت، اور آزادانہ تعلیمی ماحول کو پروان چڑھا یا جائے۔