بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا دھرنا اسلام آباد میں دسویں روز میں داخل ہو چکا ہے، جب کہ مزید لواحقین بلوچستان سے سفر کر کے دھرنے میں شامل ہو گئے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی بازیابی اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خاتمے کے مطالبے پر یہ دھرنا جاری ہے، تاہم اسلام آباد پریس کلب جانے والے راستے بدستور پولیس رکاوٹوں اور بسوں سے بند ہیں۔
شدید بارشوں اور خراب موسم کے باوجود خواتین، بزرگوں اور بچوں سمیت مظاہرین پرعزم انداز میں احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم، تاحال دھرنے میں شریک بلوچ لواحقین کو کیمپ لگانے کی اجازت نہیں دی گئی، جس کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
مظاہرین کے مطابق شدید گرمی کے باوجود پاکستانی حکام انہیں نہ تو کیمپ لگانے دیتے ہیں اور نہ ہی سایہ فراہم کیا گیا ہے۔ کل کئی خواتین اور بچے گرمی، تھکن اور پانی کی کمی کے باعث بے ہوش ہو گئے، مگر اب تک کوئی انسانی یا طبی امداد فراہم نہیں کی گئی۔
شرکاء کا کہنا ہے کہ اسلام آباد پریس کلب جانے والے راستے اب بھی رکاوٹوں سے بند ہیں تاکہ دھرنے کو عوام کی نظروں سے دور رکھا جا سکے۔ اس کے باوجود مزید خاندان دھرنے میں شامل ہو رہے ہیں، جو ہراسانی، گرمی اور غیر انسانی حالات کے باوجود ثابت قدم ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نہ صرف جبر ہے بلکہ ایک منظم ظلم ہے، تاہم مظاہرین پُرعزم ہیں اور ان کی جدوجہد کو دبایا نہیں جا سکتا۔
یاد رہے کہ بلوچ مظاہرین کی جانب سے حکومت کے سامنے دو بنیادی مطالبات رکھے گئے ہیں:
- بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت پر قائم جھوٹے مقدمات کا خاتمہ اور ان کی فوری رہائی
- بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ اور لاپتہ افراد کی بازیابی
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سنگین انسانی مسئلے کا نوٹس لیں اور مظاہرین کے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کے لیے کردار ادا کریں