بلوچ عورت دو انتہاؤں کے بیچ: ایک طرف ریاست سے مزاحمت، دوسری طرف غیرت کے نام پر موت
تحریر: دُر بی بی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کے ضلع مستونگ کے علاقے ڈغاری میں عیدالاضحیٰ سے چند روز قبل پیش آنے والا غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ صرف دو نوجوانوں کی جان کا ضیاع نہیں، بلکہ بلوچ سماج کی گہرائیوں میں چھپے تضادات اور بےحسی کی ایک کربناک جھلک ہے۔ دی بلوچستان پوسٹ کی تحقیق کے مطابق، ایک لڑکی اور لڑکے کو عوامی ہجوم کے سامنے گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ لڑکی، جو اپنی موت کا ادراک کر چکی تھی، قرآن پاک ہاتھ میں اٹھائے قاتلوں کے سامنے آئی اور کہا: “بس سات قدم میرے ساتھ چلو، پھر مار دینا۔”
اور پھر اُس نے وہ الفاظ کہے جو ایک پوری تہذیب پر سوال بن کر گونجتے ہیں:
“صرف سُم ئنا اجازت اے نمے”
(ترجمہ: صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے)
نہ اُس کی آنکھ میں آنسو تھے، نہ زبان پر رحم کی التجا۔ وہ خود آگے بڑھی، سر بلند کیا، اور اپنی گولی کا انتظار کیا۔ قتل کیے گئے نوجوان کی شناخت احسان سمالانی کے طور پر ہوئی۔ واقعے کے مرکزی کرداروں میں لڑکی کا بھائی جلال خان ساتکزئی بھی شامل ہے، جس کے بارے میں علاقائی ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کے روابط سیکیورٹی اداروں سے ہیں، اور ایف سی کے ایک کرنل نے مبینہ طور پر اسے اسلحہ فراہم کیا۔
بلوچ سماج کی متضاد حقیقتیں
بلوچ خواتین حالیہ برسوں میں ایک منفرد سیاسی مقام پر پہنچ چکی ہیں۔ وہ ریاستی جبر کے خلاف سڑکوں پر ہیں، عدالتوں میں مقدمات لڑ رہی ہیں، اور جبری گمشدگیوں کے خلاف عالمی فورمز پر آواز اٹھا رہی ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، ڈاکٹر صبیحہ، سائرہ، سیما، فوزیہ، ماہ زیب، گلزادی بلوچ، بیبو اور کئی دیگر نوجوان خواتین کی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ عورت صرف مظلوم نہیں، بلکہ مزاحمت کی ایک پوری زبان ہے۔
ہم ماہ جبین کی 53 روزہ جبری گمشدگی پر معاشرے کو جھنجھوڑتے ہیں، ماہ رنگ اور اس کے ساتھیوں پر ریاستی مقدمات کے خلاف بولتے ہیں، اور ڈاکٹر صبیحہ پر ہونے والے جبر کے خلاف چیختے ہیں۔ مگر جب ایک لڑکی، اپنی عزت و جان بچانے کے لیے قرآن کے سائے میں موت کا استقبال کرتی ہے، تو ہم کچھ حد تک چیختے ہیں، لیکن بلوچستان میں اس مسئلے سے بڑے مسائل ہیں، یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں یا یہ سوچ کر چپ ہو جاتے ہیں کہ ہمارا بولنا پاکستانی میڈیا اور ریاست کے مفاد میں جائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ پوری قوم ایسی نہیں، یا پھر یہ سارا واقعہ نصیر آباد کے قریب ہوتا ہے، جو سندھ کے قریب ہے اور وہاں کا کلچر مختلف ہے۔
یہی وہ چیزے ہیں جو بلوچ تحریک کی اخلاقی بنیاد کو کھوکھلا کر رہی ہے۔
کیچ میں ثمینہ اور ساون کا قتل ہو یا گریشہ سے کم عمر ثمرین کی شادی، یا ہر اس قتل کو اسٹیٹ لیڈ سردار کے سر ڈال کر ہم ایک راستہ فرار تلاش کرتے ہیں، لیکن کچھ سچائیاں ہیں جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، اور جتنا جلدی ہم انہیں تسلیم کریں گے، ہماری اپنی تحریک آزادی کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCB) کی رپورٹ کے مطابق 2018 سے اب تک بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے کم از کم 143 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ تاہم تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ صرف وہ واقعات ہیں جو سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر سامنے آ سکے، جب کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے، کیونکہ ایسے بیشتر واقعات قبائلی دباؤ، خاموش معافی، یا مقامی رسومات کی آڑ میں دبا دیے جاتے ہیں۔ ان قتلوں کے پیچھے اکثر نہ صرف قبائلی نظام کی پشت پناہی ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات ریاستی اداروں کی خاموش رضامندی یا سرپرستی بھی شامل ہوتی ہے۔ ان عناصر کو وہ اجتماعی سکوت میسر آتا ہے جو ہمیں مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے سے روکتا ہے، اور قاتل کو یہ یقین دیتا ہے کہ اس کا جرم کبھی نام لے کر نہیں پکارا جائے گا۔
جب تک ہماری ریاست نہیں بنتی” — ایک خاموش جواز؟
اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ “جب تک ہماری اپنی ریاست نہیں، ہم ان سماجی مسائل کو کیسے حل کر سکتے ہیں؟”۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ تمام مظالم صرف اس لیے ممکن ہیں کیونکہ ہمارے پاس اختیار نہیں، ریاست نہیں، طاقت نہیں۔ ان کے مطابق وہ لوگ اس وقت طاقتور ہیں جو ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں، اس لیے ان کا ظلم بھی کامیاب ہے۔ مگر یہ دلیل کئی اعتبار سے نہ صرف غیر مکمل ہے بلکہ خود بلوچ قومی مزاحمت کی روح کے بھی خلاف ہے۔
کیا ظلم صرف اس وقت ظلم بنے گا جب وہ ریاستی وردی میں ہو؟ کیا عورت کا قتل اس لیے قابلِ مذمت نہیں کہ قاتل بلوچ ہے اور ریاست کا نمائندہ نہیں؟ یہ کیسا منطق ہے کہ ہم آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں لیکن اس سماج کو آزاد نہیں کرنا چاہتے جس میں غیرت کے نام پر قتل کو قبائلی روایت کے پردے میں چھپا دیا جاتا ہے؟
یہ دلیل — کہ “جب تک ریاست ہماری نہیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے” — دراصل ایک خاموش معافی ہے، ایک تاخیر پسندی ہے، جو ہمیں اپنی سماجی ذمہ داریوں سے بچنے کا راستہ دیتی ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سماجی انقلاب اکثر ریاستی انقلاب سے پہلے آتے ہیں۔ ریاست ایک سیاسی ڈھانچہ ہے، مگر معاشرہ ایک روزمرہ کی زندہ حقیقت۔ اگر بلوچ عورت کی آزادی، اس کی زندگی، اس کے فیصلے، اور اس کا احترام صرف مستقبل کی ایک ریاست پر مشروط کر دیے جائیں، تو پھر ہماری تحریک میں وہی پدرشاہی، وہی خاموشی اور وہی منافقت برقرار رہے گی جو آج کے مظالم کو ممکن بناتی ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ریاست کے حامی طبقات طاقتور ہیں، مگر ان کی طاقت صرف بندوق سے نہیں، بلکہ اس اجتماعی سکوت سے ہے جو انہیں قاتل ہوتے ہوئے بھی معاف کر دیتا ہے۔ جو عورتیں خاموشی سے موت کے منہ میں دھکیل دی جاتی ہیں، اپنی جان کے تحفظ کی التجا کرتی ہے، وہ نہ ریاست سے لڑ رہی ہیں، نہ کسی فوجی سے، بلکہ اپنے ہی بھائی، اور سماج سے۔ تو کیا ہم یہ مان لیں کہ اس کے لیے ابھی لڑنے کا وقت نہیں آیا؟ کیا اس کے لیے آزادی بعد میں آئے گی؟
اگر ہم صرف اس دن کا انتظار کرتے رہیں گے جب ہمارے پاس اپنی ریاست ہو گی، تو ہم وہی سماج ساتھ لے کر جائیں گے جس نے اپنی بیٹی کو “صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے” کہنے پر مجبور کر دیا۔ ہمیں ریاست سے پہلے، اپنے شعور کی ریاست بنانی ہو گی — ایک ایسی ریاست جو انصاف، برابری، اور انسانیت پر قائم ہو۔ اگر آج ہم اپنی عورتوں کو یہ حق نہیں دے سکتے کہ وہ زندہ رہیں، آزاد سوچیں، اور بغیر خوف کے فیصلہ کریں، تو کل بھی ہماری ریاست صرف ایک نیا جغرافیہ ہو گی، ایک نیا جھنڈا، مگر وہی پرانا سکوت۔
پدرشاہی ایک سماجی نظام ہے، جو ریاستی ڈھانچے سے کہیں پرانا، گہرا اور ہر سطح پر سرایت شدہ ہے۔ ایک بھائی جو اپنی بہن کو قتل کرتا ہے، یا کوئی شوہر یا کوئی باپ، اکثر کسی ریاستی ادارے سے تعلق نہیں رکھتا۔ مگر وہ جانتا ہے کہ سماج اس کا ساتھ دے گا، اور لوگ خاموش رہیں گے۔ یہ خاموشی ہی اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
لہٰذا، مرد کا تشدد صرف ریاست کی پناہ میں نہیں، بلکہ ہر اس رسم، عقیدے، اور “غیرت” کی اساطیر میں چھپا ہے جو عورت کو کمتر سمجھتی ہیں۔
ریاست مرد کی طاقت کو تحفظ دے سکتی ہے، مگر اسے پیدا نہیں کرتی۔ مرد کی اصل طاقت اس سماجی نظام سے آتی ہے جو اسے عورت پر حاکم بننے کا حق دیتا ہے، خواہ وہ ریاستی ملازم ہو یا ایک عام دیہی شخص۔ اگر ہم صرف ریاست کو الزام دیں گے تو ہم ان رشتوں، ان رسومات، اور اس “مذہبی تقدس” کو معاف کر دیں گے جنہوں نے مرد کو عورت کی تقدیر لکھنے والا بنا دیا ہے
بلوچ عورت کی مزاحمت ادھوری کیوں ہے؟
سوال یہ نہیں کہ بلوچ عورت مزاحمت کر رہی ہے یا نہیں، وہ کر رہی ہے، پورے شعور اور حوصلے کے ساتھ۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کی مزاحمت کو مکمل طور پر سمجھنے، سننے اور تسلیم کرنے کو تیار ہیں؟
اگر ہم بلوچ عورت کو صرف “ریاست کا شکار” بنا کر پیش کریں، اور ان زنجیروں کو نظرانداز کریں جو ہمارے اپنے گھروں، قبیلوں، رسوم، اور خاندانی غیرت کی دیواروں میں پیوست ہیں، تو ہم نہ صرف اس کی مزاحمت کو محدود کر دیتے ہیں، بلکہ اسے ایک جزوی اور ادھورا بیانیہ بنا دیتے ہیں۔
بلوچ قومی مزاحمت تبھی مکمل ہوسکتی ہے جب وہ عورت کی آزادی کو صرف ریاستی جبر سے نہیں، بلکہ سماجی غلامی سے بھی مشروط سمجھے۔ جب تک ہم صرف ریاستی مظالم پر انگلی اٹھاتے رہیں گے اور اپنے سماجی تضادات پر خاموش رہیں گے، تب تک ہماری مزاحمت صرف آدھی سچائی پر کھڑی رہے گی۔
اب وقت آ چکا ہے کہ بلوچ سماج خود اپنے اندر جھانکے۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ہمارا شعورِ انصاف صرف اس وقت بیدار ہوتا ہے جب ظلم وردی میں سامنے آتا ہے؟ کیا ہمیں ریاست اور معاشرتی تمام مظالم سے ایک ساتھ لڑنے کی ضرورت نہیں؟
ہمیں اس سوچ اور اس نظام کو مسترد کرنا ہو گا جو قاتل کو قرآن کے سامنے بھی گولی چلانے سے نہیں روکتا۔ ہمیں ہر اُس رسم، رشتے، اور خاموشی کو چیلنج کرنا ہو گا جو عورت کو “غیرت” یا کسی بھی جواز کے نام پر مٹی میں دفن کر دیتی ہے۔ بلوچ مزاحمت کو اب ایک نئی زبان درکار ہے۔ ایسی زبان جو صرف آزادی کا نعرہ نہ ہو، بلکہ عورت کے جینے، سوچنے اور فیصلہ کرنے کے بنیادی حق کو بھی اپنی تحریک کا مرکز بنائے۔
جب ایک لڑکی، موت کی پیش قدمی کو جانتے ہوئے، قرآن کو سینے سے لگا کر اپنی تقدیر کے سامنے خود کھڑی ہو جائے اور اپنی آخری سانسوں میں صرف اتنا کہے: “صرف گولی سے مارنے کی اجازت ہے” — تو یہ محض ایک جان کا خاتمہ نہیں، بلکہ پوری تہذیب، روایت اور ضمیر کی موت ہوتی ہے۔ یہ واقعہ صرف ایک جرم نہیں، ایک چیخ ہے، ایک آئینہ ہے جو ہمیں بہت کچھ دکھاتا ہے لیکن ہم آنکھیں موندھ لیتے ہیں۔ اگر ہم ظلم کو صرف ریاستی اور غیر ریاستی خانوں میں بانٹ کر دیکھیں گے، تو ہم اپنی مزاحمت کو صرف ایک سمت میں محدود کر دیں گے۔ اگر ہم ریاست کے خلاف لڑیں مگر سماج کے اندر پھیلے جبر پر خاموش رہیں، تو ہم شاید ایک جنگ ضرور جیت جائیں گے، مگر پوری ایک پورا حصہ ہار دیں گے۔ سچائی کو صرف وہاں نہیں پکارنا چاہیے جہاں وہ ہمیں سہولت دیتی ہے، بلکہ وہاں بھی جہاں وہ ہمیں بےچین کر دیتی ہے ورنہ ہم تاریخ میں مظلوم نہیں، خاموش ظالم لکھے جائیں گے۔
ہمیں اپنی عورتوں کو خودمختار بنانا ہوگا، اور یہ ذمہ داری بلوچ آزادی پسند تمام آرگنائزیشنز، پارٹیز، اور مسلح جدوجہد پر عائد ہوتی ہے۔ ہم یہ کہہ کر آنکھیں نہیں بند کر سکتے کہ ہمارے پاس کریمہ جیسی پہلی چئیرپرسن رہی ہے، یا بی ایس او آزاد نے ہمیشہ عورت اور مرد کو برابر عہدے اور اختیارات دیے ہیں، کیونکہ پدرشاہی سماج میں گہرائی تک سمائی ہوئی ہے، اور آزادی کے بعد جو ہوگا والا نعرہ کام نہیں کرے گا۔ محاذ پہلے سے کھلا ہوا ہے، ہمیں بس کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ صرف غیرت کا مسئلہ نہیں، یہ اس پورے اخلاقی نظام کا بحران ہے جو عورت کے وجود کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ بعض عورتیں خاموشی سے مار دی جاتی ہیں، اور اگر کوئی سوال اٹھائے تو ان کے کردار پر ایسا داغ لگا دیا جاتا ہے کہ معاشرہ بھی قاتل کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔
شاہینہ جیسے کئی نام ہمارے سامنے ہیں، جن پر الزام لگانا، ان کے قتل کو “جائز” قرار دینا، اور پھر انہیں اجتماعی حافظے سے مٹا دینا ایک معمول بن چکا ہے۔ وہ عورت جو اپنی صفائی دینے کے لیے بھی زندہ نہیں رہی، اس پر بات کرنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔ کردارکشی اب تلوار سے زیادہ تیز ہتھیار ہے، جو صرف جسم کو نہیں، عورت کی آواز، اس کے حق، اور اس کے وجود کو بھی کاٹ کر خاموش کر دیتا ہے۔
ہمیں اس جھوٹے اخلاقی نظام کو توڑنا ہوگا جو عورت کے وجود کو ہمیشہ دفاع میں رکھتا ہے۔ عورت کو انسان ماننا کوئی مغربی نظریہ نہیں، بلکہ ایک بنیادی سچائی ہے، اور جب تک ہم اسے نہیں مانتے، تب تک نہ سماج آزاد ہوگا، نہ مزاحمت مکمل۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔