بلوچ عورت، ریاستی منافقت اور “غیرت” کا جھوٹا بیانیہ: ایک نوآبادیاتی پروپیگنڈا
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جب بھی بلوچستان میں کسی بلوچ عورت کے خلاف ظلم ہوتا ہے بالخصوص “غیرت کے نام پر قتل” جیسے حساس واقعے پر تو ریاستِ پاکستان کی حکمران اشرافیہ، بالخصوص پنجابی وزراء اور ریاستی میڈیا، اچانک “حقوق نسواں” کے ہمدرد بن کر نمودار ہوتے ہیں۔ مگر ان کا یہ دکھ، یہ مذمت، یہ “انصاف کی دہائی ایک سفاک ڈرامہ ہے ایک ایسا ڈھونگ جو بلوچ قومی تحریک کو بدنام کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ مظلوم بلوچ عورت کے لیے ہمدردی نہیں، بلکہ اس کی مزاحمت کو دفن کرنے کی ایک ریاستی چال ہے.
ریاست کی “غیرت” صرف بلوچ عورت کیلئے؟
ہر سال پاکستان کے مختلف حصوں میں سینکڑوں خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا میں مگر ان پر ریاست خاموش رہتی ہے، نہ وزیر دفاع کا بیان آتا ہے، نہ میڈیا کی بریکنگ نیوز بنتی ہے، اور نہ ہی عالمی اداروں کو متوجہ کیا جاتا ہے۔
لیکن جیسے ہی کوئی بلوچ عورت کسی پرسرار یا ریاستی سازش کے تحت قتل ہوتی ہے، ریاست اچانک “حقوق نسواں” کی علمبردار بن جاتی ہے۔ یہی منافقت بلوچ عوام نے بارہا دیکھی اور جھیلی ہے۔
بارکھان قتل: ریاستی وزیر کے ہاتھوں ماں اور بیٹی کا قتل
سال 2023 میں بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا: ریاستی وزیر، اور بدنامِ زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ عبدالرحمٰن کھیتران نے اپنی نجی جیل میں قید ایک ماں اور بیٹی کو بہیمانہ تشدد کے بعد قتل کر کے ان کی لاشیں کنویں میں پھینک دیں۔ یہ کوئی قبائلی یا غیرت کا معاملہ نہیں تھا یہ ایک خالصتاً ریاستی سرپرستی میں ہونے والا جنگی جرم تھا۔
عبدالرحمٰن کھیتران کے خلاف عوامی مظاہرے ہوئے، میڈیا میں شور اٹھا، لیکن ریاست نے نہ صرف اسے گرفتار کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی، بلکہ بعد میں انہیں کلین چٹ دے کر دوبارہ نظامِ اقتدار کا حصہ بنا دیا۔ یہ واقعہ خود اس بات کی زندہ مثال ہے کہ ریاستی “انصاف” اور “غیرت” کا بیانیہ صرف اس وقت فعال ہوتا ہے جب بلوچ تحریکِ آزادی کو بدنام کرنا ہو لیکن جب قاتل کوئی ریاستی اہلکار ہو، تو وہ بےقصور قرار پاتا ہے۔
اسی طرح مشکے میں پیش آنے والے واقعات میں، بلوچ خواتین کو ان کے گھروں میں نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے کئی خواتین بلوچ لاپتہ افراد کے رشتہ دار تھیں یا ریاستی ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہی تھیں۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ ان پر حملے ریاستی خفیہ اداروں یا ان کے پروردہ گروہوں کی کارستانی تھے مگر ریاستی بیانیہ ان واقعات کو “قبائلی دشمنی” یا “ذاتی تنازعہ” قرار دے کر اصل مجرموں کو چھپا لیتا ہے۔
یاد رکھیں بلوچ عورت صرف مظلوم نہیں، مزاحمت کی علامت ہے، یہ تمام واقعات اس بات کا اعلان ہیں کہ بلوچ عورت صرف ظلم کی شکار نہیں بلکہ شعور، استقامت اور مزاحمت کی علامت ہے۔ وہ ان گلیوں میں ہے جہاں احتجاجی بینر تھامے کھڑی ہے، وہ ان ماؤں میں ہے جو اپنے لاپتہ بیٹوں کی بازیابی کیلئے عدالتوں کے دھکے کھا رہی ہیں، وہ ان بہنوں میں ہے جو کیمپوں میں بیٹھی دنیا سے سوال کرتی ہیں: “میرے بھائی کا جرم کیا تھا؟
یہی عورت جب سیاسی شعور اختیار کرتی ہے تو ریاست کو سب سے بڑا خطرہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ مزاحمت صرف مردوں کا کام نہیں، جب عورت شعور میں آ جائے تو پوری نسل جاگتی ہے۔
بلوچ عورت کے خلاف ظلم، ریاستی جبر کی توسیع ہے
خواجہ آصف جیسے وزراء کا حالیہ بیانیہ جس میں بلوچ سماج کو ہانر کلنگ کے تناظر میں وحشی اور پس ماندہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے درحقیقت ریاستی جبر کے اصل چہرے کو چھپانے کی کوشش ہے مگر بارکھان کی ماں اور بیٹی، مشکے کی مقتول بلوچ خواتین، اور کوئٹہ، تربت، خضدار کی احتجاج کرتی ماہیں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ قاتل قبائلی نہیں، ریاستی ہیں.
سازش غیرت کی نہیں، تسلط کی ہے
اور مزاحمت ابھی باقی ہے. اسلئے بلوچ راجی جُنز سے جڑے تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ قبل از آزادی معاشرے کی سدھار اور ریاستی سرپرستی میں چلنے والی مسترد شدہ قوتوں کے خلاف ایک حکمت عملی بنائیں جو آئے روز بوسیدہ قبائلی نظام کے آڑ میں اپنی وحشیانہ حاکمیت کو دوام دینے کی خاطر ریاستی سرپرستی میں بلوچ سماج کے منظم ستونوں کو ریزہ ریزہ کررہی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔