بلوچ یکجہتی کمیٹی ( بی وائی سی ) نے بلوچ راجی مچی کے ایک سال مکمل ہونے پر اس عظیم قومی اجتماع کی یاد میں مختلف تقریبات کے انعقاد کا اعلان سمیت اسے ایک دستاویزی شکل دینے کا اعلان کیا ہے ۔
تنظیم نے ” بلوچ راجی مچی کے ایک سال ، ہماری ذمہ داریاں اور بلوچ قوم کا مستقبل” کے عنوان سے ایک پمفلٹ کا اجرا کیا ہے ۔
پمفلٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ انسان جو کسی خطے پر صدیوں سے آباد ہو، جن کی تاریخ، ثقافت، شناخت، زبان، روایات، اقدار اور مفادات ایک جیسے ہوں، وہ ایک “قوم” کہلاتے ہیں۔ آج دنیا میں ہزاروں اقوام آباد ہیں؛ کچھ نیشن اسٹیٹس کی صورت میں اپنے زمین کی خود حکمران ہیں، تو کچھ دیگر اقوام کے بنائے گئے اسٹیٹ نیشنز کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ کئی اقوام آج بھی اپنی شناخت بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، جبکہ بہت سی اقوام تاریخ، تہذیب اور زبان سمیت صفحۂ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔
پمفلٹ میں بی وائی سی نے کہا ہے کہ قوم کا وجود میں آنا تاریخ کے ارتقاء کا حصہ ہے، لیکن اس وجود کو قائم رکھنا اُس قوم کے شعور، مزاحمت اور مسلسل جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ انسان کی ایک فطری خصوصیت ہے کہ وہ اختیار اور اقتدار کا خواہاں ہوتا ہے۔ کچھ انسان اپنے علم و ایجادات سے دنیا کو منور کرتے ہیں، جیسے جس نے پہیہ ایجاد کیا، وہ خود تو موجود نہیں مگر اس کی ایجاد آج بھی ترقی کی بنیاد ہے۔ وہ حاکم ہے۔ لیکن کچھ انسانوں نے طاقت کے نشے میں قتل و غارت، قبضے اور جنگیں کیں، جن میں کئی اقوام مٹ گئیں۔ ان اقوام کے مٹنے میں صرف کالونائزر کا ہاتھ نہیں تھا، بلکہ ان اقوام کا بھی جنہوں نے زندہ رہنے کے بعد بغیر مزاحمت کے اپنی زبان، ثقافت اور شناخت کو کالونائزر کے ساتھ ضم کر دیا۔
بی وائی سی کا کہناہے کہ یہ دنیا کے بے رحم ارتقائی اصولوں میں سے ایک ہے: “Survival of the Fittest”۔ جو پیچھے رہ گئے، وہ تاریخ سے مٹ گئے؛ جو مقابلہ کرتے رہے، وہ آج بھی زندہ ہیں۔ بلوچ قوم ہزاروں سالوں سے اس سرزمین پر آباد ہے۔ اس نے نہ صرف شدید موسمی حالات کا سامنا کیا، بلکہ ہر کالونائزر سے لڑ کر اپنی شناخت، اپنی زبان، اپنی ثقافت کو محفوظ رکھا۔ آج جو روایات، زبان اور قومی شعور ہمارے پاس ہے، وہ ان بے غرض اور بے نام لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جن کے نام شاید ہمیں کبھی نصاب میں پڑھائے بھی نہ جائیں، لیکن انہوں نے ہر دور میں آنے والے جبر کا جرت اور شعور سے مقابلہ کیا۔
پمفلٹ میں کہاگیا کہ آج بلوچ قوم اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ جہاں ایک طرف ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں، وہیں کچھ لوگ اپنی شناخت سے بھی دستبردار ہوتے جا رہے ہیں۔ اپنی ثقافت کو فراموش کرنا، اپنی اقدار سے منہ موڑ لینا، قومی شعور سے بے گانگی، یہ سب شناخت کھونے کی علامات ہیں۔ جب ایک بلوچ، دوسرے بلوچ کے لیے کھڑا نہ ہو سکے، جب ایک بلوچ اپنی ہی بھائی کے قاتل کے صفوں میں شامل ہو، تو یہ اجتماعی انحطاط کی نشانی ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ آج ایک طرف بلوچ قوم ظالم قوتوں کے خلاف صف آراء ہیں، تو دوسری طرف ہمارے ہی اندر سے کچھ افراد زمین و قوم کا سودا کر رہے ہیں یا بے حسی کا مظاہرہ کر کے خود کو لاتعلق کر چکے ہیں۔ یہ کوئی معمولی سیاسی جدوجہد نہیں، یہ بقا کی جدوجہد ہے، ایک ایسی تحریک جس میں ہر فرد کا کردار ناگزیر ہے۔ اگر ہم نے اپنی قومی جدوجہد کو صرف چند مخلص کارکنوں کے کندھوں پر چھوڑ دیا، تو نہ صرف یہ بوجھ ان پر بھاری ہو گا بلکہ ہماری قومی ارتقائی مزاحمت بھی کمزور ہو جائے گی، اور ہم لمحہ بہ لمحہ تاریخ کے صفحوں سے مٹتے چلے جائیں گے۔ زندہ رہنے کے لئے ہر ایک بلوچ کو جدوجہد کرنا ہوگا اور ہر بلوچ کو اس تحریک کا حصہ ہونا ہوگا۔
بی وائی سی نےجاری کردہ پمفلٹ میں کہا کہ بلوچ راجی مُچی کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ یہ دن بلوچ قوم کی تاریخ کا وہ اہم سنگِ میل ہے جب بلوچ قوم نے صدیوں سے جاری تقسیم و تفریق کو رد کر کے اجتماعی مزاحمت کا راستہ چُنا۔ بلوچ قوم نے اپنے بازؤں پر اعتماد کرکے ایک نیا باب رقم کیا، اور ثابت کر دیا کہ ظالم اور جابر چاہے کتنا بھی طاقتور ہو، عوامی اور قومی اجتماع کے سامنے اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان دنوں کی تکلیف، مصائب، ریاست کی سفاکی اور ہمارے لوگوں کی امید و استقامت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہم ہی اپنے تاریخ کے اصل معمار ہیں۔ ہمیں ہی فیصلہ کرنا ہے کہ خاموش تماشائی بنے رہیں، یا آگے بڑھ کر صدیوں پر محیط جبر کی زنجیروں کو توڑ ڈالیں۔ راجی مُچی کا دن اس صدی کا پہلا قدم تھا، ایک ایسا قدم جو قومی یکجہتی کی طرف اٹھایا گیا اور جو پختہ، پرامید اور انقلابی تھا۔ اب اس سفر کو جاری رکھنا ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔
راجی مُچی کے شہداء کا خون ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم نہ صرف اس یکجہتی کو برقرار رکھیں بلکہ ہر اس جدوجہد کا حصہ بنیں جو بلوچ قوم کو ایک منظم، باشعور اور باوقار قوم بنانے کی طرف لے جائے۔
پمفلٹ میں کہا گیا کہ آج بلوچ قوم اپنی ہی سرزمین میں بدترین حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ کہیں جبری گمشدگیاں ہیں، کہیں افیون زدہ معاشرہ، کہیں انسانی پیدا کردہ قحط، کہیں آپریشنز میں گھروں کا جلنا، کہیں زمینوں پر قبضے۔ اس جبر کے ماحول اور کالونائزیشن نے ہمارے قوم کے درمیان تفریق کا ماحول پیدا کیا اور اس تفریق کے سبب ہم اپنی اجتماعی شناخت کھوتے جا رہے ہیں۔
تنظیم کی جانب سے پمفلٹ میں مزید کہا گیا کہ راجی مُچی میں بلوچ نے ان تمام تفریقوں کو مسترد کیا۔ انفرادی خواہشات سے بلند ہو کر، اجتماعی جدوجہد کا راستہ چُنا۔ ہر بلوچ دوسرے بلوچ کے ساتھ کھڑا ہوا، نہ مذہب، نہ قبیلہ، نہ جنس، نہ عمر، نہ مالی حیثیت، نہ خطہ، کچھ بھی آڑے نہیں آیا۔ سیستان سے ڈی جی خان، کراچی سے تفتان تک، بلوچ مرد، عورت، بوڑھے، نوجوان اور بچے ہر رکاوٹ کے خلاف ڈٹ گئے۔
پمفلٹ میں بی وائی سی نے کہا کہ شہید نصیر بلوچ، شہید حکمت بلوچ، شہید حمدان بلوچ اور شہید اصغر بلوچ کی قربانیاں صرف ان کی بہادری کی وجہ سے یاد نہیں رکھی جائیں گی، بلکہ اس اجتماعی فلسفے کی بنیاد پر یاد رکھی جائیں گی جس نے ایک نئی بلوچ وحدت کی بنیاد رکھی۔ ان شہداء کا خون ان سینکڑوں لوگوں سے کئی گنا قیمتی ہے جو آج اپنے ذاتی معمولی مفاد اور آسائش کے لیے قوم اور زمین کا سودا کر رہے ہیں۔
بی وائی سی نے پمفلٹ میں کہا کہ ہمیں اپنے ہر عمل کو اجتماعی قومی منزل کی طرف لے جانا ہو گا۔ اپنے ثقافت، زبان، شناخت، اقدار اور لوگوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہو گا۔ہر شعبہ اور طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد صرف اور صرف قومی بقاء اور قومی ترقی اور ایک منظم و ترقی یافتہ سماج کی تشکیل کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں اپنے گاؤں، محلوں میں ان تمام عوامل کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی جو ہمیں اجتماعی طور پر نقصان پہنچا رہے ہیں: جیسے اپنے بھائیوں کو قتل کرنے کے لئے ڈیتھ اسکواڈ کا حصہ ہونا، منشیات فروشی، غیرت یا زمین کے نام پر قتل، تعلیم سے محرومی، خواتین کی قید اور دیگر سماجی برائیاں شامل ہیں۔
یہ تمام رویے ہمیں زوال کی طرف لے جا رہے ہیں، اور یہ نقصان صرف چند افراد کا نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے۔
پمفلٹ میں کہا گیا کہ آئیے! راجی مُچی کے دن کو قومی یکجہتی کی جانب ایک بیداری کا پہلا قدم سمجھ کر اس جدوجہد کو جاری رکھیں۔ اپنے ہر عمل کو قومی بقا اور اجتماعی شناخت کی طرف موڑیں، اور ہر اُس شخص اور عمل سے کنارہ کش ہو جائیں جو ہماری قومی وحدت اور تشخص کے خلاف ہو۔ بلوچ نسل کشی کے خلاف ہر صورت آواز اٹھائے، اپنے لوگوں کے جبری گمشدگی، قتل اور تشدد کے خلاف آواز اٹھائے، اپنے گھروں میں بغیر اجازت چھاپوں کے خلاف آواز اٹھائے، اپنے معاشی قتل کے خلاف آواز اٹھائے، اگر آج ہم نے ظلم و جبر کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تو ہماری قومی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کی جائے گی۔