بلوچ خواتین پر سیاسی سرگرمیوں کی پابندی، گوادر میں کانفرنس زبردستی منسوخ کیا گیا۔ بلوچ وومن فورم

29

بلوچ وومن فورم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گوادر میں ان کی تنظیم کی جانب سے منعقد کی جانے والی کانفرنس کو ریاستی جبر، گرفتاریوں اور جبری بے دخلی کے باعث منسوخ کرنا پڑا۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ نہ صرف بلوچ خواتین کی سیاسی آزادی پر حملہ ہے بلکہ بلوچستان میں ریاستی اداروں کے جبر کی ایک اور سنگین مثال بھی ہے۔

بیان کے مطابق بلوچ وومن فورم کی جانب سے گوادر میں ایک اہم کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا تھا جس کا موضوع تھا “بلوچ سیاسی اداروں پر کریک ڈاؤن اور بلوچستان کا موجودہ سیاسی منظرنامہ”اس کانفرنس کے لیے کئی ہفتوں سے تیاریاں جاری تھیں جس میں مقامی خواتین، طلبہ، سماجی کارکنوں اور سیاسی ماہرین کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

تاہم کانفرنس سے چند روز قبل ہی ریاستی اداروں نے تنظیم کی سرگرمیوں پر کڑی نگرانی شروع کی مرکزی رہنماؤں کو ہراساں کیا گیا اور آخرکار متعدد خواتین کارکنوں کو گوادر سے حراست میں لے کر تربت بے دخل کر دیا گیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام اقدامات بغیر کسی قانونی نوٹس یا وارنٹ کے کیے گئے۔

تنظیم کے مطابق حراست کے دوران خواتین سے سخت تفتیش کی گئی ان کے سیاسی نظریات اور تنظیمی وابستگی پر سوالات کیے گئے اور انہیں خاموش رہنے کی دھمکیاں دی گئیں دورانِ حراست خواتین کو قانونی مشورے یا اپنے اہلِ خانہ سے رابطے کی اجازت نہیں دی گئی اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا۔

بلوچ وومن فورم نے کہا ہے کہ اس واقعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلوچستان میں خواتین کو نہ صرف اظہارِ رائے کی آزادی حاصل نہیں بلکہ انہیں سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں شرکت سے بھی جبراً روکا جارہا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک علمی اور پرامن کانفرنس کو طاقت کے زور پر منسوخ کرانا اور خواتین کو ہراساں کر کے گوادر سے بے دخل کرنا نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ریاستی طاقت کے غیر جمہوری استعمال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تنظیم نے حکومت اور انسانی حقوق کے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس واقعے کا نوٹس لیں خواتین کی گرفتاری اور بے دخلی کے واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور بلوچستان میں پرامن سیاسی سرگرمیوں کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔