بلوچستان میں رات گئے سے جاری مسلح حملوں کی لہر نے بلوچستان کے سیکورٹی صورتحال کو مخدوش بنادیا ہے، مختلف اضلاع میں پاکستانی فورسز، پولیس، چیک پوسٹوں، سرکاری منصوبوں، مواصلاتی ٹاورز اور تنصیبات کو درجنوں حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے جب کہ کئی علاقوں میں ناکہ بندیاں، گھات لگا کر حملے، اور نگرانی کے آلات کو بھی تباہ کیا گیا ہے۔
یہ حملے 9 جولائی کی رات شروع ہوئے اور 10 جولائی کی رات تک تسلسل کے ساتھ جاری رہے جن میں خاران، کیچ، سبی، جھاؤ، نصیرآباد، خضدار، قلات، مستونگ، کوئٹہ، کوہلو، اور دیگر اضلاع شامل ہیں۔
متعدد علاقوں میں اب بھی مسلح افراد کی موجودگی اور سڑکوں پر ناکہ بندی کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پنجگور میں قلم چوک پر قائم پاکستانی فورسز کی چوکی پر صبح 11 بجے مسلح افراد نے حملہ کیا۔ خاران میں یکے بعد دیگرے تین حملے ہوئے جہاں پاکستان فورسز اہلکاروں، ملٹری انٹیلیجنس کے دفتر اور گواش روڈ پر قائم ایف سی چوکی کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
سبی کرمو وڈھ، دوسا لاشاری اور پھاٹک پر پولیس چوکی سمیت ٹول پلازہ کے قریب فورسز کی چیک پوسٹوں پر حملے کئے گئے ہیں۔ جھاؤ نوندڑہ کولنج، گزی، داروکوچہ اور ڈولیجی میں فوجی کیمپ اور یوفون ٹاورز کو حملوں کا نشانہ بنے۔
کیچ کے علاقے گورکوپ، مند، سری گڈگی، بل نگور، نیامی کلگ، جوسک اور تمپ کے مقامات پر چوکیوں اور کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا اور متعدد مقامات پر ماٹر گولے داغے گئے۔
قلات کے علاقے کپوتو، توک، مرجان، منگوچر اور دشت گوران میں پاکستانی فورسز کے چیک پوسٹوں، موبائل ٹاورز، فورسز کی گاڑیوں اور تنصیبات پر حملے کئے گئے۔ کوئٹہ میں سونا خان، ہزار گنجی، کرانی روڈ پر چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ کوئٹہ سے متصل مستونگ کے علاقے دشت میں چیک پوسٹوں اور سیکریٹریٹ کی بس پر حملے ہوئے۔
نصیرآباد و صحبت پور میں لوہی، ساسولی، چھتر اور شہنشاہ کے مقامات پر پولیس چیک پوسٹیں نشانہ بنیں۔ خضدار وڈھ پلی مس اور دراکالہ میں مرکزی کیمپ اور قیمتی معدنیات لے جانے والی گاڑیوں پر حملے ہوئے ہیں۔
دالبندین میں گیس لے جانے والی گاڑیوں پر مسلح افراد کا حملہ، بلیدہ میں یو بی ایل بینک کی عمارت نذرآتش، خاران میں سی پیک لنک روڈ اور لتاڈ میں ایف سی چیک پوسٹیں آن حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔
رات گئے شروع ہونے والے ان مسلح حملوں میں کئی مقامات پر پاکستانی فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکتوں اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، جب کہ بھاری مالی نقصان بھی ہوا، فورسز کی جانب سے فضائی نگرانی کے لیے ڈرونز اور سرویلنس کیمروں کا استعمال کیا گیا جنہیں حملہ آوروں نے نشانہ بنا کر تباہ کردیا۔
بلوچستان کے صوبائی حکومت کی جانب سے متعدد علاقوں میں حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سیکورٹی بحالی کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں، سیکیورٹی فورسز نے متعدد علاقوں کو سیل کردیا ہے اور جوابی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔
تاہم آخر اطلاعات تک کئی علاقوں میں سڑکوں پر ناکہ بندیاں، اسنیپ چیکنگ اور ٹریفک کی بندش جاری ہے جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
واضح رہے کہ گذشتہ شب بلوچستان لبریشن فرنٹ ’’آپریشن بام‘‘ کا اعلان کیا تھا تنظیم کے ترجمان نے میڈیا کو جاری کردہ مختصر بیان میں کہا ہے کہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور مکمل تفصیلات آپریشن کے اختتام پر جاری کی جائیں گی۔
دریں اثناء بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے سوراب کے علاقے گدر میں پاکستانی فورسز کے مرکزی کیمپ پر حملہ کرکے قبضے میں لیا گیا، علاقے میں پہنچنے والے فورسز کے قافلوں کو دو حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔ بی ایل اے ترجمان جیئند بلوچ کے مطابق حملوں میں مجموعی طور پر 18 پاکستانی اہلکار ہلاک اور جھڑپوں میں بی ایل اے کا ایک شرمچار بھی مارا گیا۔