بلوچستان کی سیاسی جماعتیں: عوامی مفاد یا فیس سیونگ؟
تحریر: اعظم الفت
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان اپنے قدرتی وسائل اور جغرافیائی اہمیت کے باوجود، سیاسی اور معاشی طور پر پسماندہ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات سیاسی جماعتوں کی غیر سنجیدہ پالیسیاں، بدعنوانی اور عوامی مفادات سے لاتعلقی ہیں۔ حال ہی میں منظور ہونے والے منرلز اینڈ مائنز ایکٹ نے ایک بار پھر بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اس تحریر میں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے کردار کا تنقیدی جائزہ لیا جائے گا اور اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے گا کہ کیا یہ جماعتیں واقعی عوام کی نمائندگی کرتی ہیں یا صرف اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے سرگرم ہیں؟
۴ جون ۲۰۲۵ کو بلوچستان اسمبلی میں منظور ہونے والا منرلز اینڈ مائنز ایکٹ، بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے دوغلے کردار کو عیاں کرتا ہے۔ اس ایکٹ کی منظوری کے بعد صوبے میں سیاسی ہلچل دیکھی گئی، لیکن یہ ہلچل عوامی مفاد کی بجائے سیاسی فیس سیونگ کی کوشش زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) جیسی جماعتوں نے اس بل کی منظوری کے عمل میں اہم کردار ادا کیا۔ ان جماعتوں نے نہ صرف بل کی تیاری اور منظوری کے مراحل میں حکومت کی مکمل حمایت کی بلکہ ایوان میں اس کے حق میں ووٹ بھی دیا۔ تاہم، جب عوامی حلقوں، خاص طور پر نوجوانوں، طلبہ اور سیاسی کارکنوں کی جانب سے اس بل کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا تو ان جماعتوں نے اپنا مؤقف بدل لیا۔ اچانک یہ جماعتیں بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کر کے خود کو عوام کا خیر خواہ ظاہر کرنے لگیں۔ یہ رویہ واضح کرتا ہے کہ ان کا مقصد عوامی مفادات کا تحفظ نہیں بلکہ عوام کے غم و غصے کو کم کرنا اور اپنی سیاسی ساکھ کو بچانا ہے۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا ماضی اس امر کی گواہی دیتا ہے کہ وہ اکثر ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں، چاہے اس کا نقصان صوبے کے عوام ہی کیوں نہ اٹھائیں۔ نیشنل پارٹی اور جے یو آئی نے ماضی میں بھی کئی مواقع پر ریاستی پالیسیوں کی کھل کر حمایت کی ہے، چاہے وہ وسائل کی لوٹ مار ہو یا بنیادی حقوق کی پامالی۔ منرلز اینڈ مائنز ایکٹ کے معاملے میں بھی ان کا کردار مختلف نہیں رہا۔
یہ جماعتیں بلوچستان اسمبلی میں بل کی منظوری کے وقت خاموش رہیں، لیکن عوامی دباؤ بڑھنے پر انہوں نے عدالت کا رخ کیا۔ یہ عمل محض ایک ڈرامہ ہے، جس کا مقصد عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ ان کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کی عدالتیں، خاص طور پر بلوچستان ہائی کورٹ، ماضی میں ریاستی بیانیے کی حمایت کرتی رہی ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے حالیہ کیسز میں عدالت کی خاموشی اس بات کی واضح مثال ہے کہ عدالتیں مکمل طور پر آزاد اور غیر جانبدار نہیں ہیں۔
بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کرنا سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ یہ جماعتیں بخوبی جانتی ہیں کہ عدالتوں نے ماضی میں بلوچستان کے عوام کے حق میں فیصلے دینے سے گریز کیا ہے۔ پھر بھی، وہ عدالتوں کا سہارا لے کر عوام کو یہ دکھانا چاہتی ہیں کہ وہ ان کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہیں۔ یہ عمل نہ صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے بلکہ ان کے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کی حکمت عملی بھی ہے۔
اگر ماضی کے عدالتی فیصلوں پر نظر ڈالی جائے تو بلوچستان ہائی کورٹ کا کردار ہمیشہ سے متنازع رہا ہے۔ چاہے وہ جبری گمشدگیوں کے کیس ہوں یا وسائل کی لوٹ مار کے معاملات، عدالتوں نے اکثر ریاستی اداروں کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔ اس تناظر میں سیاسی جماعتوں کا عدالت سے رجوع کرنا ایک سیاسی چال سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ عدالت سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوگا، لیکن اس عمل سے وہ عوام کو یہ کہہ سکیں گی کہ انہوں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی۔ بی این پی مینگل نے نام نہاد سیمینار کا انعقاد کر کے بلوچ قوم پر احسان جتانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔
بلوچستان کے قدرتی وسائل جیسے کہ معدنیات، گیس، اور تیل ہمیشہ سے ریاستی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نظروں میں رہے ہیں۔ منرلز اینڈ مائنز ایکٹ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے ذریعے بلوچستان کے وسائل کو قانونی طور پر ہتھیانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے، بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اس عمل میں شریک ہیں۔ وہ نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں بلکہ بعض اوقات فعال طور پر اس لوٹ مار کی حمایت بھی کرتی ہیں۔
نیشنل پارٹی، جو خود کو بلوچ قوم کا نمائندہ کہتی ہے، نے اس بل کی منظوری کے وقت کوئی قابل ذکر مزاحمت نہیں کی۔ اسی طرح جے یو آئی اور دیگر جماعتیں بھی حکومتی پالیسیوں کی حمایت میں پیش پیش رہی ہیں۔ یہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ان جماعتوں کی ترجیحات عوامی مفادات سے زیادہ ذاتی اور سیاسی فوائد سے وابستہ ہیں۔
بلوچستان کے عوام، خاص طور پر نوجوان اور طلبہ، اس بل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا مؤقف واضح ہے کہ یہ ایکٹ بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کو قانونی شکل دینے کی کوشش ہے۔ عوامی دباؤ کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں مجبور ہوئیں کہ وہ اس بل کے خلاف آواز اٹھائیں، لیکن ان کی یہ آواز خلوص سے عاری ہے۔ وہ محض عوامی غم و غصے کو کم کرنے کے لیے عدالتوں کا رخ کر رہی ہیں، تاکہ وہ اپنی سیاسی ساکھ کو برقرار رکھ سکیں۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو اگر اپنا سیاسی مستقبل محفوظ رکھنا ہے تو انہیں اپنے کردار پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ عوام اب پہلے سے زیادہ باشعور ہیں اور وہ سیاسی جماعتوں کے دوغلے پن کو بخوبی سمجھنے لگے ہیں۔ اگر یہ جماعتیں واقعی بلوچستان کے عوام کی نمائندگی کرنا چاہتی ہیں تو انہیں ریاستی اداروں کے تابع ہونے کی بجائے عوام کے حقوق کے لیے کھل کر لڑنا ہوگا۔
بلوچستان کی سیاسی جماعتیں آج ایک دوراہے پر کھڑی ہیں۔ ایک طرف عوام کی توقعات ہیں، جو ان سے شفافیت، خلوص اور جدوجہد کا مطالبہ کرتی ہیں، اور دوسری طرف ریاستی اداروں کا دباؤ ہے، جو انہیں اپنے مفادات کے تابع رہنے پر مجبور کرتا ہے۔ منرلز اینڈ مائنز ایکٹ کے معاملے میں ان جماعتوں کا کردار واضح کرتا ہے کہ وہ عوامی مفادات سے زیادہ اپنی سیاسی ساکھ بچانے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اگر یہ جماعتیں اپنا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہیں تو انہیں عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، نہ کہ ریاستی اداروں کے ساتھ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔