بلوچستان کی سیاست: نظریات کا زوال، شخصیت پرستی کا عروج
تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کی سیاست آج جس نہج پر پہنچ چکی ہے، وہ فکری اور سیاسی لحاظ سے مکمل اپاہج پن کا منظر پیش کر رہی ہے۔ جمہوریت اور سیاسی عمل، جو کبھی نظریات، اصولوں اور عوامی خدمت کی بنیاد پر استوار ہونے چاہیے تھے، اب شخصیات، وفاداریوں، خوشامد اور موقع پرستی کے گرد گھومنے لگے ہیں۔
سیاسی کارکن اب نظریاتی بنیادوں پر سیاست میں داخل نہیں ہوتے۔ وہ کسی سیاسی فلسفے یا اصولی مؤقف سے متاثر ہو کر میدان میں نہیں آتے بلکہ کسی “شخصیت” سے متاثر ہو کر خود کو سیاسی عمل کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اور جب یہی شخصیت کسی موقع پر غلطی کا شکار ہو جائے، تو کارکن فوری طور پر مایوسی، بےاعتمادی اور انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کی سیاسی وابستگی کا مرکز اور محور چونکہ کوئی نظریہ نہیں بلکہ فرد ہوتا ہے، اس لیے سیاسی میدان ان کے لیے مستقل منزل کی بجائے وقتی جذباتی سہارا بن جاتا ہے۔
آج بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کی اکثریت سیاسی پروگرام، پارٹی منشور یا پالیسیوں پر بحث کرنے سے قاصر ہے۔ حمایت اور مخالفت کے تمام پیمانے “فرد” کی محبت یا نفرت پر قائم ہو چکے ہیں۔ سیاسی گفتگو اب علمی یا فکری دائرے میں نہیں رہ گئی، بلکہ یہ محض شخصیات کی مدح سرائی یا مخالفت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
ایلیانور روزویلٹ کا قول یہاں بہت برمحل ہے:
“Great minds discuss ideas; average minds discuss events; small minds discuss people.”
(عظیم ذہن خیالات پر گفتگو کرتے ہیں، اوسط ذہن واقعات پر، اور چھوٹے ذہن افراد پر بات کرتے ہیں۔)
اسی حقیقت کا عکس بلوچستان کی سیاست میں نمایاں ہے۔ آج سیاسی کارکن اپنی جماعت کی پالیسیوں پر فخر کرنے کی بجائے کسی شخصیت کے ساتھ تصویر کھنچوانے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی رہنما کے ساتھ تصویر یا پوسٹ شیئر کرنا اصل سیاسی تربیت یا شعور کی جگہ لے چکی ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں بھی اس عمل میں برابر کی شریک ہیں۔ وہ نظریاتی کیڈر بنانے، ورکشاپس منعقد کرنے، فکری تربیت دینے اور کارکنوں کو علمی بنیادوں پر سیاست سمجھانے کے بجائے، انہیں خواب و خیال کی دنیا میں رکھے ہوئے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی میدان سے “نظریہ” رخصت ہو چکا ہے اور اس کی جگہ “چاپلوسی” اور “خوشامد” نے لے لی ہے۔
اب عہدے کارکنوں کی محنت، صلاحیت یا وفاداری کی بنیاد پر نہیں دیے جاتے، بلکہ خوشامدی رویے، مالی حیثیت، یا کسی ٹھیکیدار سے قربت انعام کا سبب بنتی ہے۔ اس نظام نے نہ صرف باصلاحیت کارکنوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے بلکہ پورے سیاسی کلچر کو کھوکھلا کر دیا ہے۔
بدترین صورتحال تب پیدا ہوتی ہے جب پارٹی یا اس کا لیڈر کوئی واضح غلطی کرتا ہے، تب بھی کارکن اس غلط فیصلے کی اصلاح یا تنقید کی بجائے، اسے “صحیح” ثابت کرنے پر اپنی توانائی صرف کرتے ہیں۔ دلیل، اختلافِ رائے اور تنقیدی شعور کا گلا گھونٹ کر، وہ ایک غلامانہ پیروی کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں، جو کسی بھی جمہوری عمل کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
بلوچستان کی سیاسی اور فکری دنیا اس وقت ایک نازک اور خطرناک موڑ پر ہے، جہاں شخصیت پرستی نے نظریات کو نگل لیا ہے، اور خوشامد نے شعور کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ جب تک ہم خیالات کو مرکز نہیں بناتے، جب تک سیاسی کارکن فکری تربیت سے نہیں گزرتے اور جب تک ہم اختلافِ رائے کو گالی سمجھتے ہیں تب تک بلوچستان میں نہ مثبت سیاست پروان چڑھ سکتی ہے، نہ پارٹیوں اور تنظیموں میں جمہوریت مستحکم ہو سکتی ہے۔
بلوچستان کی بیشتر پارلیمانی جماعتوں کے قائدین اور ترجمانوں کے بیانات سے ایک گہری فکری بانجھ پن، نظریاتی انحطاط اور سیاسی تربیت کی شدید کمی جھلکتی ہے۔ سیاسی مکالمے کی جگہ دشنام طرازی، اور ایک دوسرے کو ہجو کا نشانہ بنانے کا رویہ رائج ہو چکا ہے، جو نہ صرف سیاسی پسماندگی کی علامت ہے بلکہ فکری زوال اور نظریاتی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔
قیادت میں مطالباتی شعور کی کمی واضح ہے جب تک کوئی سیاسی کارکن یا رہنما مطالبے کی بنیاد پر اپنی سیاست کا تعین نہ کرے، اس کی جدوجہد محض شخصی مفادات کا تعاقب بن کر رہ جاتی ہے۔
کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے لازم ہے کہ وہ تاریخ، ادب اور فلسفہ کا گہرا مطالعہ کرے کیونکہ یہ علوم اس کی سوچ کو وسعت دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنی سماجی ساخت، عوام کی نفسیات، مختلف زبانوں، ثقافت، سیاسی اصطلاحات اور مقامی و عالمی سیاسی نظاموں کا ادراک بھی ہونا چاہیے۔ ایک باشعور سیاسی کارکن کو معیشت، قانون، مذہب، میڈیا اور ٹیکنالوجی جیسے شعبہ جات کے بنیادی اصولوں سے بھی واقف ہونا چاہیے، تاکہ وہ اپنے معاشرے کو بہتر انداز میں سمجھ سکے اور اس کی حقیقی نمائندگی کر سکے۔
اس کے علاوہ، ایک سیاسی کارکن کے لیے انسانی حقوق کی تفہیم اور اقوامِ متحدہ کے عالمی انسانی حقوق کے منشور سمیت دیگر بین الاقوامی قوانین اور معاہدات سے آگاہی بھی ازحد ضروری ہے، تاکہ وہ نہ صرف اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد کر سکے بلکہ عالمی سطح پر ہونے والی انسانی ناانصافیوں کو بھی سمجھ سکے اور ان کے خلاف مؤثر آواز بلند کر سکے۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا اپنی آواز کو دنیا تک پہنچانے کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ سیاسی کارکنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے مؤثر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے اس حوالے سے باقاعدہ تربیت حاصل کریں۔ صرف تصاویر شائع کرنا کافی نہیں، بلکہ عوامی و سماجی مسائل، ریاستی جبر اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے کے لیے اس پلیٹ فارم کو بہتر انداز میں استعمال کیا جانا چاہیے۔
ہر سیاسی کارکن کو صحافت کا کردار بھی ادا کرنا چاہیے تاکہ وہ عوامی مسائل کی نشاندہی، معلومات کی ترسیل اور رائے عامہ کی تشکیل میں مؤثر کردار ادا کر سکے۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کارکنوں کو معاشرے کے لیے ایک کارآمد فرد بنانے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کی تربیت فراہم کریں۔
سوشل میڈیا صرف رابطے کا ذریعہ نہیں رہا، بلکہ اب یہ ایک طاقتور ابلاغی ہتھیار بن چکا ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف معلومات کا تبادلہ ممکن ہوا ہے، بلکہ رائے عامہ پر بھی گہرا اثر ڈالا جا سکتا ہے۔ سیاسی جدوجہد، انسانی حقوق، عوامی مسائل، اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید و تجزیہ جیسے امور کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے سوشل میڈیا ایک مؤثر پلیٹ فارم ہے۔ اگر اس کا استعمال ذمہ داری اور سوجھ بوجھ کے ساتھ کیا جائے تو یہ تبدیلی کا ایک زبردست ذریعہ بن سکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔