بلوچستان: جبری گمشدگیاں و ذیشان ظہیر کا قتل: بی این پی کا تربت میں احتجاج

63

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کیچ کے زیر اہتمام جمعرات کے روز تربت میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں، بی وائی سی کے کارکن ذیشان ظہیر کے قتل، اور بلوچ سیاسی کارکنوں پر قائم کیے گئے مبینہ جھوٹے مقدمات کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔

تربت احتجاجی مظاہرے میں خواتین، نوجوانوں، اور شہریوں کی بڑی تعداد کے ہمراہ بی وائی سی کیچ کے ذمہ داران اور وکلاء شریک ہوئے۔

احتجاج ایسے وقت میں ہوا ہے جب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماؤں کو 8 جولائی کو کوئٹہ کی ہدہ جیل سے نکال کر سول لائنز پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا گیا ہے اور ان کے اہلِ خانہ اور وکلاء کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔

ذرائع کے مطابق پولیس اسٹیشن کے اطراف کا علاقہ مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے اور میڈیا سمیت عام شہریوں کو قریبی رسائی سے روک دیا گیا ہے جس پر بلوچستان کے سیاسی تنظیموں و انسانی حقوق کے اداروں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

بی وائی سی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کے قائدین کو پولیس کی حراست میں ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، اور ملاقات پر پابندی اس امکان کو مزید تقویت دیتی ہے۔

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی سینٹرل کمیٹی کے رکن ڈاکٹر غفور بلوچ نے کہا کہ سیاسی قیادت کی گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں اور جھوٹے مقدمات نہ صرف غیر آئینی ہیں بلکہ بلوچستان میں موجود سیاسی بحران کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا ریاست اگر آوازوں کو دبانے کی کوشش کرے گی تو یہ خود اپنے وجود پر سوال کھڑا کرے گی۔

احتجاج میں شریک بی وائی سی کیچ کی رہنما سید بی بی بلوچ نے ذیشان ظہیر کے قتل کو ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈز کا نتیجہ قرار دیا، انہوں نے کہا کہ ذیشان ظہیر نہ صرف پارٹی کے سرگرم رکن تھے بلکہ ایک پرامن سیاسی کارکن تھے جنہیں خاموش کرنے کے لیے نشانہ بنایا گیا۔

اس موقع پر بی این پی کیچ کے قائم مقام صدر حاجی عبدالعزیز بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں نے عوام کو سیاسی اور سماجی طور پر مفلوج کر دیا ہے زندگی کا حق چھیننا، سیاسی سوچ کو مجرم قرار دینا اور مظلوموں کو دیوار سے لگانا یہ سب ریاستی دہشتگردی کی علامتیں ہیں۔

پیپلزپارٹی پر تنقید کرتے ہوئے مکران بار ایسوسی ایشن نصیر احمد گچکی نے اسے غیر جمہوری قوتوں کی پیداوار قرار دیا اور کہا کہ اس جماعت کی سرپرستی میں بلوچستان میں بدترین مظالم جاری ہیں۔

مکران بار ایسوسی ایشن کے صدر ایڈوکیٹ محراب گچکی نے اس موقع پر کہا کہ بی این پی اور بی وائی سی کو سیاسی مزاحمت کی سزا دی جا رہی ہے مگر وکلاء برادری آئینی حقوق کی اس جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

احتجاج میں بی این پی کی خواتین رہنما یاسمین رؤف اور دیگر کارکنان نے بھی شرکت کی، جب کہ نظامت کے فرائض پارٹی کے جنرل سیکرٹری شے ریاض احمد نے انجام دیے۔