اسلام آباد میں جبری گمشدگی کا شکار افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماؤں کے اہلِ خانہ کا دھرنا تمام رکاوٹوں کے باوجود آج چھٹے روز بھی جاری رہا۔
لواحقین کو آج مسلسل تیسرے روز اسلام آباد پولیس کی جانب سے پریس کلب جانے سے روکا گیا، اور انھیں ٹینٹ نصب کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے باعث بلوچ خواتین کو شدید بارش کے دوران کھلے آسمان تلے احتجاج جاری رکھنا پڑا۔
اس حوالے سے بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ رکنے والی بارش اور اسلام آباد پریس کلب کی جانب جانے والی سڑکوں کی بندش کے باوجود لواحقین چھٹے روز بھی اپنے پُرامن احتجاج پر قائم ہیں اور وہ بی وائی سی کے رہنماؤں کی رہائی اور جبری گمشدگیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
آج پولیس کی بڑی نفری احتجاجی مقام پر پہنچ گئی بی وائی سی کے مطابق پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ مظاہرین کو شناخت کے بہانے ہراساں کررہی ہے اور ان کی پروفائلنگ کی جارہی ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔
تنظیم نے خبردار کیا ہے کہ اگر مظاہرین میں سے کسی کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی مکمل ذمہ داری اسلام آباد پولیس اور پاکستانی حکام پر عائد ہوگی اور بارش اور دھمکیوں کے باوجود مظاہرین اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔
یاد رہے کہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے حکومت کے سامنے دو بنیادی مطالبات پیش کیے گئے ہیں جن میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت پر قائم جھوٹے مقدمات کا خاتمہ اور ان کی رہائی سمیت بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ اور لاپتہ افراد کی بازیابی شامل ہے۔
رات گئے حکام کی جانب سے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کو انکے رہائشی فلیٹ سے بھی نکال دیا گیا تھا جس کے باعث انھیں مختلف مقامات پر رات گزارنی پڑی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس سنگین صورتحال کا نوٹس لیں اور مظاہرین کے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی میں اپنا کردار ادا کریں۔