ایک لازمانی و انقلابی ذہن کو خراجِ عقیدت – سردار خان بلوچ

78

ایک لازمانی و انقلابی ذہن کو خراجِ عقیدت

تحریر: سردار خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نرم لہجہ، دل میں رچی ہوئی عجز و انکساری، آنکھوں میں آزادی کی جھلملاتی ہوئی منزل کی تابندگی، اور جذبات میں کامیابی کا ایک روشن اور پُرعزم عکس، یہ سب عناصر مل کر سنگت قاضی کی اُس مثالی شخصیت کا پیکر تراشتے ہیں جو منتشر اذہان کو یکسوئی عطا کرتے، اور مایوسیوں کو ولولہ نو میں ڈھال دیتے۔

آپ وہ شخصیت تھے جن کی موجودگی، محض الفاظ سے نہیں بلکہ احساسات کی گہرائی سے راستہ دکھاتی تھیں، جیسے چراغِ راہ ہو اندھیروں میں، یا جیسے امید کی پہلی کرن ہو کسی طویل شب کے بعد۔ ایک ایسی ہستی، جنہیں صرف یاد نہیں کیا جاتا بلکہ دل کی گہرائیوں میں محسوس کیا جاتا ہے، جو صرف زندہ نہ رہے، بلکہ اپنے وجود کی روشنی سے ایک سوئی ہوئی دنیا کو بیدار کر گئے۔
آپ ایک لمحہہ زیست نہ تھے، بلکہ ایک مسلسل تاثر، ایک جاری فہم، جو وقت کی دھند میں بھی روشن رہے، اور دلوں کے دریچوں میں ہمیشہ کے لیے جا گزیں ہو گئے۔

آپ فقط ایک انسان نہ تھے، آپ ایک مجسّم فکر، ایک زندہ و متحرک فلسفہ، ایک خاموش مگر انقلاب آفریں صدا تھے۔ آپ الفاظ کی حدود میں قید ہونے والے نہ تھے، بلکہ ایک ایسے لطیف احساس تھے جو دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر شعور کی زمین ہلا دیتے تھے۔

آپ کی موجودگی محض افعال کا سلسلہ نہ تھی، بلکہ ایک زندہ پیغام تھی، کہ جینا محض فطری عمل نہیں، بلکہ ایک بیدار شعور کا انتخاب ہے، اور تبدیلی، فقط خواہش نہیں، بلکہ ایک مقدّس ذمہ داری ہے۔

آپ اپنی ذات میں خود ایک مکمل نظامِ فکر تھے، ایک ایسا جامع پروگرام جو صرف خواب نہیں دیکھتے، بلکہ تقدیروں کو نئی صورتوں میں ڈھالنے کا ہنر بھی رکھتے تھے۔ آپ صرف رائج نظاموں کی اصلاح پر قانع نہ تھے، بلکہ ان کی بنیادوں پر سوال اٹھاتے، ان کے خدوخال ازسرِ نو ترتیب دیتے۔

آپ کی سوچ تقلید کی زنجیروں سے آزاد تھی، آپ راستوں کے پیروکار نہیں، بلکہ ان کے خالق تھے۔ آپ اُن سرزمینوں پر قدم رکھتے تھے، جہاں چلنے کا حوصلہ صرف وہی لوگ رکھتے ہیں جو زمانے سے آگے دیکھنے کی جرأت رکھتے ہوں۔

آپ کو محض “پروگرامر” کہنا شاید آپ کی انقلابی ہستی کی وسعت کو محدود کر دینے کے مترادف ہو۔ آپ ایک بیدار کن صدا تھے، جو روحوں کو جھنجھوڑتے، ذہنوں کو بیدار کرتے، اور ہر خاموش عمل کے پسِ پردہ ایک دبے ہوئے نعرے کو زندہ رکھتے تھے: سوچو، بدلو، آگے بڑھو۔

آپ کی خاموشی میں ایک ایسی بازگشت پوشیدہ تھی جو وقت کی روانی کو مفلوج کر دیتی۔ آپ کے قرب میں بیٹھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے زندگی ایک لمحے کے لیے ساکت ہو گئی ہو، اور وقت خود آپ کو رہنمائی کے لیے تک رہا ہو۔ آپ کے الفاظ کم تھے، مگر ان میں صدیوں کی دانش، تجربے کی تپش، اور وجدان کی گہرائی سمٹی ہوئی ہوتی تھیں، ہر جملہ ایک مکمل نظریہ، ہر اشارہ ایک نیا زاویہ فکر۔

آپ صرف ذمہ داریاں ادا کرنے والے فرد نہ تھے، بلکہ اُن میں اس طرح محو تھے جیسے اپنا وجود اُن کے سپرد کر چکے ہوں۔ آپ نے وقت کو کبھی محض “صرف” نہیں کیا، آپ نے اُسے “نذر” کیا، اخلاص، ایثار، اور وفاداری کے سنگ۔

آپ کا ہر لمحہ، ہر قدم، اوسط پن (mediocrity) کے خلاف ایک اعلانِ بغاوت تھا، ایک خاموش مگر مسلسل جنگ، جمود کے خلاف، بے معنویت کے خلاف، اور اُن تمام رکاوٹوں کے خلاف جو روحِ انسانی کو خواب دیکھنے سے روکتی ہیں۔ اب جب آپ ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں، تو آپ کا خلا صرف جسمانی نہیں، یہ ایک فکری، نظریاتی اور روحانی کمی ہے، جو ہر لمحہ شدت سے محسوس ہوتی ہے۔

ہم اُس ہستی کا سوگ منا رہے ہیں جو فقط ایک فرد نہ تھے، بلکہ ایک مکمل نظامِ فکر، ایک طرزِ زیست، اور ایک زندہ وراثت تھے۔ لیکن صداقت یہ ہے کہ آپ گئے نہیں۔ آپ آج بھی اُن خیالات میں زندہ ہیں جو آپ نے پروان چڑھائے، اُن راستوں میں موجود ہیں جنہیں آپ نے اپنے عزم و وجدان سے تراشا، اور اُن نفوس میں سانس لے رہے ہیں جنہیں آپ نے خواب دیکھنے، سوچنے، اور جاگنے کا سلیقہ بخشا۔ آپ آج بھی ہر اُس ذہن میں حیات ہیں جو سوال اٹھانے کی جُرأت رکھتا ہے، ہر اُس دل میں دھڑک رہے ہیں جو صداقت کی تڑپ، اور مقصد کی روشنی سے منور ہے۔ آپ کا وجود اب ایک فرد سے نکل کر ایک ابدی تحریک میں ڈھل چکا ہے، ایک ایسی صدا جو وقت کے کینوس پر ہمیشہ گونجتی رہے گی۔

آپ نے ہمیں یہ سکھایا کہ زندگی محض گزارنے کا نام نہیں، بلکہ یہ خود کو تراشنے، زمانے کو سنوارنے، اور ایک معنویت کی تلاش کا مسلسل سفر ہے۔ آپ نے ہمیں صرف علم نہیں بخشا، آپ نے ہمیں جُرأت دی، وہ جُرأت جو ہمیں معمولی ہونے سے انکار سکھاتی ہے، وہ جُرأت جو بغاوت کی راہ دکھاتی ہے، مگر ایسی بغاوت، جو شعور سے روشن، محبت سے لبریز، اور مقصد سے جڑی ہو۔ آپ نے ہمیں یہ دکھایا کہ خاموشی بھی اپنی گہرائی میں انقلاب سموئے ہوئے ہوتی ہے، اور یہ کہ ایک تنہا انسان، اگر اپنی ذات کو کسی عظیم تر مقصد کے لیے وقف کر دے، تو وہ دنیا کے مزاج، وقت کے بہاؤ، اور تاریخ کے رخ کو بھی بدل سکتا ہے۔آپ کی تعلیمات محض الفاظ میں محدود نہ تھیں وہ ایک جہت تھیں، ایک روشنی، جو آج بھی دلوں میں جلتی ہیں اور ضمیر کو بیدار رکھتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔