ایل پی جی لے جانے والی گاڑیاں بلوچ وسائل کی ترسیل میں شریک نہیں۔ آل بلوچستان ٹرانسپورٹ کا وضاحتی بیان

243

آل بلوچستان ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے مسلح تنظیموں سے گاڑیوں کو نشانہ نہ بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ریاستی منصوبوں سے کوئی تعلق نہیں۔

بلوچستان میں آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے قدرتی وسائل کی لوٹ مار میں شریک گاڑیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے، تاہم اس صورتحال کے پیش نظر آل بلوچستان ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے سرمچاروں سے ایک ہمدردانہ اپیل جاری کی ہے۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ ہم بلوچستان والوں کے پاس ٹرانسپورٹ کے سوا کوئی اور روزگار نہیں نہ یہاں فیکٹریاں ہیں، نہ ہی کوئی دوسرا ذریعہ معاش جس سے ہم اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کما سکیں یا ان کی تعلیم کا خرچ اٹھا سکیں۔

ٹرانسپورٹرز اتحاد نے واضح کیا کہ جن بوزر اور دیگر گاڑیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کا تعلق بلوچستان کے قدرتی وسائل کی ترسیل سے نہیں ہے ہماری بوزر گاڑیاں بلوچستان کی گیس سپلائی نہیں کرتیں بلکہ ایران سے آنے والی ایل پی جی لے کر جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا ہم بلوچستان کی معدنیات نہیں لے جا رہے یہ تمام گاڑیاں عام غریب بلوچوں کی ملکیت ہیں جن کے ذریعے ان کے گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔

آل بلوچستان ٹرانسپورٹ نے بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے رہنماؤں سے گزارش کی ہے کہ وہ اس اپیل پر سنجیدگی سے غور کریں اور عام بلوچ شہریوں کی گاڑیوں کو نشانہ نہ بنائیں۔

دوسری جانب آزادی پسند حلقوں کی جانب سے حالیہ بیانات اور کارروائیوں میں یہ مؤقف سامنے آیا ہے کہ وہ صرف ان گاڑیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو ریاست کے ساتھ مل کر بلوچستان کے قدرتی وسائل کو منتقل یا پاکستانی معیشت کو توانا کرنے میں شریک ہیں۔

بعض مواقع پر جب بلوچ سرمچاروں نے چیکنگ کے دوران ایسی گاڑیاں پائیں جو وسائل کی ترسیل سے متعلق نہ تھیں انہیں جانے کی اجازت دی گئی۔

تاہم آل بلوچستان ٹرانسپورٹ کا مؤقف ہے کہ موجودہ صورتحال نے عام بلوچوں کی زندگی مزید مشکلات میں ڈال دی ہے اور اگر ان کا واحد ذریعہ معاش بھی محفوظ نہ رہا، تو ہزاروں خاندان بھوک اور بے روزگاری کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔

اپیل کا اختتام ان الفاظ پر کیا گیا ہم تمام بلوچ مسلح تحریکوں کے سربراہان سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری درخواست پر سنجیدگی سے غور کریں، اور ہماری گاڑیوں کو نشانہ نہ بنائیں یہ گاڑیاں کسی سرمایہ دار یا غیر بلوچ کی نہیں، بلکہ سب غریب بلوچوں کی ہیں۔