انقلاب کی کشمکش اور اس کے مراحل – ارشاد شمیم

41

انقلاب کی کشمکش اور اس کے مراحل

تحریر: ارشاد شمیم

دی بلوچستان پوسٹ

ہم اکثر انقلاب کو ایک فوری، پرجوش اور ہیجان خیز لمحے کی صورت میں دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ایسا لمحہ جو اچانک آئے، سب کچھ تہہ و بالا کر دے اور پھر صبح ایک نیا سورج، ایک نئی دنیا لے کر طلوع ہو مگر حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ، صبر آزما اور فکری مشقت سے بھری ہوئی ہے۔ انقلاب نہ تو نعرے سے آتا ہے، نہ کسی ہنگامے سے۔ یہ کسی تندور میں تیار ہونے والا شام کا کیک نہیں، جس کا ذائقہ اگلی صبح چائے کے ساتھ چکھا جائے۔ انقلاب ایک نظریاتی، فکری، اور طبقاتی سفر ہے؛ ایسا سفر جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی کامیاب انقلابی تحریک بغیر تیاری، تنظیم اور تربیت کے کبھی بارآور نہیں ہوئی۔ اگر ہم سنجیدگی سے سماج میں کوئی حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں، تو ہمیں سب سے پہلے ایک ایسی طلبہ تنظیم کی بنیاد رکھنی ہوگی جو صرف وقتی مسائل پر نہیں بلکہ مکمل نظریاتی اساس پر کھڑی ہو۔ وہ تنظیم جو اپنے ہر فرد کو ایک فکری مجاہد بنائے؛ جسے اپنی سمت، مقصد اور طریقہ کار کا شعور ہو۔

یہی پہلا مرحلہ ہے یعنی فکری جدوجہد کا مرحلہ۔ اس مرحلے میں نوجوان ذہنوں کو تیار کیا جاتا ہے۔ ان کی سوچ میں وسعت پیدا کی جاتی ہے۔ مطالعہ، مکالمہ، اور تربیت کے ذریعے وہ قوت پیدا کی جاتی ہے جو سماج کے مروجہ بیانیے کو علمی بنیادوں پر چیلنج کر سکے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہجوم، قافلہ بننا شروع کرتا ہے۔ جب افراد، کارواں کا شعور حاصل کرتے ہیں۔ یہاں صبر اور دانش مندی بنیادی اوزار ہوتے ہیں۔

دوسرا مرحلہ طبقاتی کشمکش کا آغاز ہے۔ اس مقام پر تنظیم، طلبہ کی سطح سے نکل کر عوامی سطح پر قدم رکھتی ہے۔ یہاں وہ مزدوروں، کسانوں اور پسے ہوئے طبقات کی حقیقی آواز بنتی ہے۔ ان کے معاشی، سماجی، اور قانونی مسائل کو اجاگر کرتی ہے، ان کے ساتھ ہڑتالوں، مظاہروں، اور احتجاجی تحریکوں میں شریک ہوتی ہے۔ یہاں وہ نظریاتی کارکن، جو درس گاہوں میں شعور کی آگ بھڑکا رہا تھا، اب گلی کوچوں میں مظلوموں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب عوامی حلقوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ محض نعرے نہیں لگاتے بلکہ ہمارے درد کو سمجھتے ہیں، اس کا مداوا چاہتے ہیں، اور خود کو ہماری صف میں کھڑا کرتے ہیں۔

تیسرا اور آخری مرحلہ طبقاتی جنگ ہے، جہاں پوری تحریک اپنی مکمل بلوغت کو پہنچ چکی ہوتی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جب صرف شعور اور احتجاج نہیں، بلکہ حقیقی انقلابی تبدیلی کی تدبیر کی جاتی ہے۔ یہاں نظام کو جڑ سے ہلانے کی تیاری ہوتی ہے مگر یہ مرحلہ تبھی حاصل ہوتا ہے جب ابتدائی دونوں مرحلے مکمل اخلاص، تسلسل اور قربانی کے ساتھ طے کیے گئے ہوں۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر انقلابی جوش و خروش، فکری بلوغت کے بغیر ابھرتا ہے۔ ہم ہنگاموں کو انقلاب سمجھ بیٹھے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ نہ کوئی دیر پا تبدیلی آتی ہے، نہ کوئی انقلابی روایت قائم ہو پاتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ انقلاب کا راستہ صبر، حکمت اور مستقل مزاجی سے گزرتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہ سفر تین ہفتوں، تین مہینوں یا حتیٰ کہ تین سالوں میں مکمل نہ ہو۔ شاید یہ تین سو سالوں تک چلے۔ یہ کوئی وقتی ری ایکشن نہیں بلکہ ایک مسلسل ذہنی، فکری، اور عملی تگ و دو ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک پائے دار انقلاب کا خواب صرف وہی شخص دیکھ سکتا ہے جس کے ذہن میں وقت کی طوالت، فکر کی گہرائی اور قربانی کی وسعت ہو۔ اگر آپ نے سماج میں اپنی فکری اور تربیتی میخیں مضبوطی سے گاڑ دی ہیں، تو کسی بھی ہنگامہ خیز لمحے میں آپ کے پاس وہ صلاحیت موجود ہوگی کہ آپ اس طوفان کو انقلاب میں ڈھال سکیں۔ لیکن اگر زمین میں آپ کی جڑیں نہیں، تو طوفان آپ کو بھی اڑا کر لے جائے گا۔

آج ہمیں فوری نتائج سے زیادہ، درست سمت میں درست تیاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو صرف نعرے سکھانے کی بجائے، انہیں سوچنے، سمجھنے، اور تشکیل دینے کی تربیت دینی ہوگی۔ تب ہی ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ جس تبدیلی کا خواب برسوں سے ہماری آنکھوں میں ہے، وہ حقیقت بن کر ابھرے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔