اصولی موقف پر استقامت قومی جدوجہد کی طاقت ہے۔ ڈاکٹر نسیم بلوچ

36

کارکنان کی تربیتی نشست سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ قومی تحریکیں محض نعروں یا جذباتی ردِعمل سے نہیں چل سکتیں۔ ایک باشعور اور مؤثر تحریک وہی ہوتی ہے جو عملی طور پر میدان سیاست میں ہو۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریک سیاسی اور سفارتی میدانوں میں مسلسل ترقی کرتی رہے۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں کامیاب قومی تحریک کا معیار یہ ہے کہ وہ مسلسل فکری اور عملی ارتقاء سے گزرے اور اپنی قیادت و کارکنان کو بدلتے عالمی منظرنامے کے مطابق تیار کرے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے ادارہ تعلیم و تربیت ( کیپسٹی بلڈنگ) کے توسط سے ”دنیا کی بدلتی صورتحال اور بلوچستان ” کے موضوع پہ ایک آن لائن پروگرام کا اہتمام کیا گیا۔ اس پروگرام کے مہمان بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ تھے، جبکہ میزبانی کے فرائض جرمنی چیپٹر نے انجام دیے۔

اس نشست کا مقصد کارکنان کی فکری، سیاسی اور عملی تربیت کو مزید مؤثر بنانا اور موجودہ عالمی و علاقائی حالات کا جائزہ لینا تھا

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے اس بات پر زور دیا کہ اصولی مؤقف پر استقامت ہی قومی جدوجہد کی اصل طاقت ہوتی ہے۔ جب تک ہم اپنے بنیادی مؤقف پر ڈٹے رہیں گے، دنیا ہماری آواز کو سننے اور ہمیں سمجھنے پر مجبور ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قومی تحریک میں سنجیدگی، پختگی اور استقامت ناگزیر عناصر ہیں، جن کے بغیر ہم علاقائی اور عالمی سطح پر کوئی مؤثر تاثر قائم نہیں کر سکتے۔

انھوں نے حالیہ عالمی تنازعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی ہو یا پھر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشکمش، یہ بلوچ سرحدوں تک پہنچ چکی ہیں، ایسے حالات میں ہماری مکمل تیاری ہی ہماری کامیابی کا ضامن ہوسکتی ہے۔

ان دونوں جنگوں میں انھوں نے امریکہ کے کردار پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے کردار سے واضح ہوتا ہے کہ عالمی سیاست مفادات کے گرد گھومتی ہے، نہ کہ اخلاقی اصولوں پہ۔ ایران جنگ کے دوران پاکستان کے کردار پہ بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا اسی تناظر میں پاکستان کا کردار بھی سامنے آتا ہے جو خطے میں ایک آلہ کار ریاست کا کردار ادا کرتا رہا۔ اس دوران دنیا نے دیکھا کہ مغرب کی بنائی گئی اس ریاست کے عسکری سربراہ کو امریکہ نے اپنے اور اسرائیل کے مفادات کی تکمیل کے لیے کس طرح امریکہ بھلایا گیا، جہاں اسے ایران اسرائیل جنگ میں مغرب کی ہمنوائی کی ذمہ داری دی گئی۔

اس دوران انھوں نے مشرق وسطیٰ کے تنازعہ پہ تفصیلی گفتگو کی۔ علاوہ ازیں روس یوکرین تنازعہ، کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا جو اب یورپ کے لیے بھی سرخ فیتہ بنتا جارہا ہے، اسی لیے بعض یورپی ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خطے میں موجود بعض ممالک مستقبل میں اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے بنکر بنانے کے کام میں تیزی لارہے ہیں۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اب یہ خطرہ ان کے سروں پہ بھی منڈلا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ بلوچ کارکنان اور قیادت کو چاہیے کہ وہ ان عالمی و علاقائی حالات کا باریک بینی مطالعہ کریں اور اپنی سیاسی بصیرت کو وسعت دیں، کیوں کہ سیاسی بصیرت ہی موثر فیصلہ سازی کا ذریعہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے جماعت کے کارکنان کی کاکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم) کے کارکنان کا متحرک انداز پارٹی کی فعالیت میں اہم کرادار ادا کررہی ہے۔ مزید انھوں نے بیرونِ ملک کارکنان کی شب و روز کی محنت پہ بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ برسوں میں بی این ایم کی سفارتی عمل میں تیزی کے نتیجے میں کئی اہم پیش رفتیں ہوئی ہیں، تاہم ہمیں اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ کسی یورپی ادارے سے ملاقات یا کسی عالمی فورم پر بلوچ مسئلے کا ذکر کر دینا ہی کامیابی ہے۔ اصل کامیابی تب ممکن ہے جب بین الاقوامی ادارے، یورپی یونین اور عالمی میڈیا بلوچ قومی مسئلے کو نسل کشی کے تناظر میں تسلیم کریں اور اس تحریک کو باقاعدہ سیاسی و انسانی بنیادوں پر حمایت فراہم کریں۔ یہ ہدف صرف منظم، مربوط اور مسلسل سفارتی و سیاسی جدوجہد سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جس کے لیے جماعت کے کارکنان انتہائی محنت سے کام کررہے ہیں۔

انھوں نے اس موقع پر عالمی سیاست کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے جس طرح ایک وقت شام میں سرگرم بعض گروہوں کو دہشتگرد قرار دیا اور بعد میں انہی کو شام کی حکومت سپرد کی۔ علاوہ ازیں کردوں کے ساتھ جس طرح ہوا وہ بھی ہمارے سامنے ہے، جہاں امریکہ اور مغرب نے انھیں داعش کے خلاف عسکری مدد و کمک فراہم کی اور جب کردوں نے داعش کی جڑیں ہلادی تو امریکہ نے ان سے منہ پھیر لیا۔ اسی طرح ماضی میں روس اور افغان مجاہدین کی مخاصمانہ تضاد بھی ہمارے سامنے ہے، جبکہ آج اسی طاقت نے انھیں تسلیم کرلیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاستیں اصولوں پر نہیں بلکہ مفادات پر اپنے تعلقات استوار کرتی ہیں۔

بلوچ قوم کو بھی اب خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارے قومی مفادات کیا ہیں، اور ہماری حکمت عملی کس سمت میں ہونی چاہیے تاکہ ہم آزادی، شناخت اور بنیادی حقوق کی جدوجہد کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھا سکیں۔

اپنے خطاب کے اختتام پر ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ دنیا تب تک کسی قوم کو تسلیم نہیں کرتی جب تک وہ خود اپنی تحریک کو سنجیدہ، منظم اور عملی میدان میں ثابت نہ کرے۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ کارکنان کی سیاسی و علمی بنیادوں پر مستقل جدوجہد ہی دنیا کی توجہ حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے۔ لہذا اپنی کامیابی کے لیے ہمیں سیاست کے اصولوں کی بنیاد پر اپنے کام کو آگے بڑھانا ہوگا۔