اسلام آباد میں بلوچ لاپتہ افراد کے اہلخانہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار قائدین کی رہائی کے لیے جاری دھرنے کے چوتھے روز پولیس کی بھاری نفری نے اسلام آباد پریس کلب کے اطراف کے تمام راستے سیل کر دیے، خاردار تاریں لگا دی گئیں اور کسی فرد یا گاڑی کو پریس کلب کی طرف جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اس موقع پر جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما اور سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پولیس کی بھاری نفری کی تعیناتی اور بلوچستان سے آئے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو احتجاج سے روکنے کی شدید مذمت کی۔
انہوں نے کہا اسلام آباد پولیس کی جانب سے پریس کلب کے سامنے چند مظلوم بلوچ بچیوں کو گرفتار کرنے کی کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کو ان کمزور آوازوں سے نہیں، بلکہ اپنی ڈریکونین پالیسیوں اور جبری گمشدگیوں جیسے ریاستی مظالم کے انکشاف سے خوف ہے۔
مشتاق احمد خان نے مزید کہا کہ بڑی مشکل سے وہ اسلام آباد پریس کلب مظلوم بلوچوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پہنچ سکے کیونکہ پورے علاقے میں مارشل لاء کا سماں ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ ظلم بند کرو جبری گمشدگی ختم کرو اور تمام جبری لاپتہ افراد کو فوری بازیاب کرو۔ بلوچستان کی آواز کو سنو۔
واضح رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار قیادت اور جبری لاپتہ افراد کے اہلخانہ اسلام آباد میں گزشتہ چار روز سے احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔
آج مظاہرین کو پریس کلب جانے سے روک دیا گیا اور ان کے مطابق انہیں گرفتار کر کے زبردستی بلوچستان واپس بھیجے جانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
اس موقع پر پولیس کے ہمراہ ایک بس بھی موجود ہے، خدشہ یے ظاہر کیا جارہا ہے کہ مظاہرین کو زبردستی بلوچستان واپس بھیجا جائے گا۔
اس موقع پر مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے کارکنان اور انسانی حقوق کے علمبردار مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے موجود رہے۔