اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بلوچ لاپتہ افراد اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے لیے ان کے لواحقین اور عزیز و اقارب کا دھرنا تیسرے روز بھی جاری رہا۔
دھرنے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کے اہلِ خانہ اور بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین شریک ہیں۔
اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے دھرنے کے شرکاء نے احتجاجی کیمپ لگانے کا اعلان کیا تھا، تاہم انتظامیہ نے خیمے نصب کرنے کی اجازت نہیں دی، اس پابندی کے باوجود، لاپتہ افراد کے خاندانوں اور دیگر مظاہرین نے شدید بارش کے باوجود کھلے آسمان تلے احتجاج جاری رکھا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کی ہمشیرہ نادیہ بلوچ نے کہا کہ ہمارا دھرنا تیسرے روز بھی جاری ہے اور ہمارے دو بنیادی مطالبات ہیں، ایک بی وائی سی قیادت کی فوری رہائی اور دوسرا جبری گمشدگیوں کا خاتمہ۔
انہوں نے آج ماہ رنگ بلوچ و دیگر بی وائی سی رہنماؤں کی پیشی کے دوران عدالتی کارروائی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج کی سماعت میں قانونی عمل کی سنگین خلاف ورزی کی گئی، جج نے وکلاء کو دلائل پیش کرنے کی اجازت نہیں دی اور مقدمے کی کارروائی خود چلائی اس کے باوجود ریمانڈ میں توسیع کی گئی۔
ایڈووکیٹ ایمان مزاری جو دھرنے میں شریک ہیں نے کہا کہ اسلام آباد انتظامیہ ہٹ دھرمی اور بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے، لواحقین کو بارش اور گرمی میں ٹینٹ لگانے کی اجازت نہیں دی گئی جس کے باعث گرمی کی شدت سے ایک بزرگ خاتون بے ہوش ہو گئی تھیں۔
پشتون رہنما افرسیاب خٹک نے آج ایک بار پھر کیمپ کا دورہ کیا، انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام کے جائز مطالبات کے حق میں اظہارِ یکجہتی ہمارا اخلاقی فرض ہے دو دن کی مسلسل بارش کے بعد آج مظاہرین کو تیز دھوپ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اسلام آباد کے حکمران لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ کو خیمہ لگانے کی اجازت نہیں دے رہے۔
اس دوران متعدد دیگر پشتون سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی کے کارکنان، طلبہ اور صحافیوں نے بھی کیمپ کا دورہ کر کے بلوچ لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
دھرنے کے شرکاء نے حکومت کے سامنے دو اہم مطالبات رکھے ہیں، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی فوری رہائی، بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریوں کا خاتمہ اور تمام لاپتہ افراد کی بازیابی شامل ہیں۔