پنجگور کا سایہ: وہ جس کا نام کوئی نہیں لیتا – نگرہ بلوچ

91

پنجگور کا سایہ: وہ جس کا نام کوئی نہیں لیتا

تحریر: نگرہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پنجگور اب وہ شہر نہیں رہا جہاں سحر امید کی گواہی دیتی تھی۔ یہاں اب اجالا بھی خوف سے لرزتا ہے، اور ہوا میں ماتم کے نوحہ رقص کرتے ہیں۔ وہ جو اندھیرے کا بیٹا ہے، نہ چہرہ، نہ شناخت، نہ منصب بس ایک سایہ ہے۔ لوگ اُسے نام دینے سے ڈرتے ہیں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ جب وہ آتا ہے، ماں کی آغوش خالی ہو جاتی ہے، استاد کا قلم ٹوٹ جاتا ہے، طالبعلم کا خواب دم توڑ دیتا ہے، اور مزدور کے ہاتھوں کی محنت لاش بن کر لوٹتی ہے۔

اس کے قدموں کی چاپ نہیں آتی، بس دروازے پر ایک خاموش دستک ہوتی ہے اور پھر گلیاں گمشدگی کے کفن میں لپٹ جاتی ہیں۔ نہ کوئی عدالت، نہ کوئی فرد جرم، بس رات کی سیاہی اور صبح کی چپ۔ وہ اکیلا نہیں، اس کے پیچھے ایک ایسا غیر مرئی نظام ہے جو ہر سوال کو جرم بنا دیتا ہے، ہر سوچ کو بغاوت اور ہر سچ کو سزا۔

مائیں ہر شام تصویریں لے کر کھجوروں کی جڑوں میں آنسوؤں کا وضو کرتی ہیں۔ ان کے ہونٹوں پر صرف آہیں ہیں، ان کی آنکھوں میں وہ چہرے جو اب زندہ تو ہیں مگر کہیں نہیں۔

وہ محض ایک طالبعلم تھا۔ اس کے ہاتھ میں کتاب تھی، بارود نہیں۔ ہماری خطا فقط یہ تھی کہ ہم نے محبت کو زبان دی۔ پنجگور کی فضا میں اب اذان بھی ادھوری سنائی دیتی ہے۔

تعلیمی ادارے مقبرے بن چکے ہیں۔ بازاروں میں موت کی خوشبو ہے، اور گلیوں میں بچوں کے کھلونے لاوارث پڑے ہیں۔ وہ، جو نامعلوم ہے، ہر شب پہاڑوں کی اوٹ سے دیکھتا ہے، اور پھر کسی ماں کا چراغ بجھا دیا جاتا ہے۔

کچھ کہتے ہیں وہ انسان نہیں، خود نظام کا سایہ ہے ایسا سایہ جو نسلوں کی یادداشت سے سوال، محبت، اور خواب مٹانا چاہتا ہے۔

پنجگور کے لوگ اب جیتے نہیں، بس سانس لیتے ہیں احتیاط، خوف، اور خاموشی کے ساتھ اور جب تک عدل کی صبح ظلم کی اس سیاہی کو چیر کر طلوع نہیں ہوتی، یہ بےنام سایہ ہر چراغ بجھاتا رہے گا، ہر گود خالی کرتا رہے گا، اور ہر آواز کو خاموشی کے قبرستان میں دفن کرتا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔