پرامن احتجاجوں پر پابندی، بلوچوں کی سیاسی جدوجہد کے راستے کو بند کرنے کے مترادف ہے۔ این ڈی پی

25

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھانے والے کارکنان کو طاقت سے کچلا جا رہا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سمیت دیگر کئی مہینوں سے غیر قانونی حراست میں ہیں جبکہ عدالتی کارروائی کو بھی شفاف نہیں رکھاجارہاہے۔پہلے تین ماہ کے لیے تری ایم پی او جیسے کالے قانون کے تحت قید میں رکھا گیا۔ جب یہ غیرقانونی نظربندی عدالت میں چیلنج ہوئی تواسے بھی رد کر دیا گیا، اور کئی بار اس میں توسیع کی گئی، اور جب اس میں مزید توسیع کا گنجائش باقی نہ رہا تو فوری طور اسے ختم کر کے انسداد دہشتگردی کے عدالت میں انہیں پیش کر کے دس روزہ ریمانڈ پر بھیج دیا گیا۔ جبکہ آج کے دن پھر ریمانڈ مکمل ہونے کے باوجود کوئی تفتیشی رپورٹ پیش نہیں کی گئی اور اب ریمانڈ میں مزید 15 دن کی توسیع کر دی گئی ہے۔عدالتی ریمانڈ میں بغیر کسی ثبوت اور قانونی جواز کے بار بار توسیع کر کے انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف بنیادی انسانی حقوق، بلکہ انصاف اور قانون کی صریح توہین ہے۔

انہوں نے کہاکہ دوسری طرف اسلام آباد میں ان مظلوم ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی، حتیٰ کہ بارش میں پناہ لینے کے لیے خیمے اور چھت ڈالنے بھی نہیں دیا جا رہا جن کا مقصد صرف اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے پرامن احتجاج ہے۔ یہ سلوک اس سچ کو بے نقاب کرتا ہے کہ ریاست نے بلوچوں کو تیسرے درجے کا شہری سمجھ رکھا ہے۔ ان سے نہ صرف ان کے بچوں کو چھینا گیا ہے بلکہ انہیں سننے والا بھی کوئی نہیں۔ پچھلے تین دنوں سے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے بلوچ مائیں احتجاج کر رہی ہیں مگر ریاستی مین اسٹریم میڈیا بھی ان کی آواز کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے ریاستی جبر میں برابر کا شریک ہے۔ یہ میڈیا نہ صرف خاموش ہے بلکہ حکومتی بیانیے کو ہی دہرا کر مظلوموں کی سچائی کو دبانے میں کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ جبر بلوچستان اور بلوچ عوام کو مزید تنہا اور مایوس کر رہا ہے۔ اگر وفاق ان مظلوموں کو سننے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے سے بھی گریزاں ہو کر دنیا کو پیغام پہنچا رہا ہے کہ بلوچ کے لیے سیاسی جدوجہد اور آئینی دائرے میں آواز اٹھانے کی بھی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔