بلوچستان میں حالات کی خرابی بعد سے اس کے ضلع مستونگ میں بھی سنگین بدامنی کے واقعات پیش آرہے ہیں، لیکن منگل کے روز ضلع مستونگ کے ہیڈ کوارٹر مستونگ شہر میں مسلح افراد نے جو حملہ کیا وہ دن کی روشنی میں اپنی نوعیت کا پہلا اور بڑا واقعہ تھا۔
سرکاری حکام کے مطابق مسلح افراد نہ صرف شہر کے مختلف علاقوں میں ڈیڑھ گھنٹے تک موجود رہے بلکہ تحصیل آفس کے علاقے سمیت بعض دیگر علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ ان کی جھڑپیں بھی ہوئیں۔
مقامی پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق مسلح افراد صبح ساڑھے دس بجے کے قریب مستونگ شہر کے مختلف علاقوں میں داخل ہوئے اور ان کے حملے میں سب سے زیادہ نقصان تحصیل آفس اور اس کے قریب بینکوں میں ہوا۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ایک سولہ سالہ لڑکا مارا گیا اور 7 افراد زخمی ہوئے جبکہ سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں دو حملہ آور ہلاک ہوئے۔
مسلح افراد شہر کے مختلف علاقوں سے داخل ہوئے
مستونگ میں انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملہ آوروں کی تعداد 30 سے 40 کے قریب تھی جو کہ ساڑھے 10 اور 11 بجے کے درمیان شہر کے مختلف علاقوں میں داخل ہوئے۔
انھوں نے بتایا کہ ان میں سے بعض نے تحصیل آفس پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں دفتر کو شدید نقصان پہنچا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تحصیل آفس کے سکیورٹی پر مامور لوگوں نے خطرے کو بھانپ لیا تو انھوں نے تحصیل کے دفتر کے مین گیٹ کو بند کیا جس پر مسلح افراد مین گیٹ سے اندر داخل نہیں ہوسکے تاہم وہ دیواریں پھلانگ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔
اہلکار نے بتایا کہ تحصیل آفس کے اندر جو لوگ تھے ان کو مسجد کے اندر بند کیا گیا جس کے بعد انھوں نے اس کے مختلف حصوں کو نقصان پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا کہ تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حملہ آور تحصیل آفس سے کوئی اسلحہ وغیرہ لے جاسکے یا نہیں۔
’حملے میں تحصیل آفس کو زیادہ نقصان پہنچا‘
مستونگ پولیس کے ڈی ایس محمد یونس مگسی نے رابطہ کرنے پر فون پر بتایا کہ مسلح افراد نے تحصیل آفس میں گرینیڈ سمیت دیگر دھماکہ خیز مواد کا استعمال کیا جس سے تحصیل آفس کے اندر گاڑیوں کو آگ لگنے کے علاوہ اس کے مختلف حصوں میں آگ لگی۔
انھوں نے بتایا کہ آگ کی وجہ سے تحصیل کے دفاتر میں پڑی فرنیچر اور ریکارڈ کو بھی نقصان پہنچا۔
’حملے میں تین بینکوں کو بھی نقصان پہنچا‘
ڈی ایس پی یونس مگسی نے بتایا تحصیل کے دفتر کو نقصان پہنچانے کے علاوہ حملہ آوروں نے اس کے قریب واقع نیشنل بینک، مسلم کمرشل بینک اور بینک الحبیب کے برانچوں پر حملہ کرکے ان کو نقصان پہنچایا۔
انھوں نے بتایا کہ ان بینکوں کو بھی نقصان پہنچانے کے لیے گرینیڈ اور دھماکہ خیز مواد کا استعمال کیا گیا جن سے آگ لگنے کی وجہ سے دو بینکوں کو زیادہ نقصان پہنچا۔
سینیئر صحافی فیض درانی نے باہر سے بینکوں کو پہنچنے والے نقصانات کا بھی جائزہ لیا۔
انھوں نے بتایا کہ ’تحصیل کے قریب واقع نیشنل بینک کی عمارت چونکہ پرانی تھی اور لکڑی سے بنی ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کی عمارت کو زیادہ نقصان پہنچا تھا جبکہ دوسرے نمبر پر زیادہ نقصان مسلم کمرشل بینک کو نقصان پہنچا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تیسرے بینک کے برانچ کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا تھا تاہم اس کے شیشے وغیرہ ٹوٹ گئے تھے۔‘
بینکوں پر حملے کے وقت اور اس کے بعد کی صورتحال کے بارے میں جب مسلم کمرشل بینک کے متاثرہ برانچ کے سینیئر آفیسر سجاد بلوچ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ چونکہ یکم جولائی کو بینک ہالیڈے کی وجہ سے بینک بند تھے اس لیے وہ کام پر نہیں گئے تھے۔‘
’حملہ آوروں سے پہلا مقابلہ تحصیل کے دفتر کے قریب ہوا‘
صحافی فیض درانی نے بتایا کہ مسلح افراد کے حملے کے بعد تحصیل آفس کی جانب سے شدید فائرنگ کی آوازوں کے علاوہ دھماکوں کی بھی آوازیں سنائی دی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سے اندازہ ہورہا تھا کہ حملے کی شدت اور فورسز اور مسلح افراد کے درمیان مقابلہ تحصیل آفس کے گردونواح میں زیادہ ہورہا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ حملہ آور اندازاً ڈیڑھ گھنٹے تک مستونگ شہر میں رہے۔
انتظامیہ کے اہلکار نے بتایا کہ مستونگ شہر میں طویل عرصے سے سنگین بدامنی کے واقعات ہورہے ہیں لیکن شہر کے اندر مسلح افراد کی بڑی تعداد کے ساتھ یہ اپنی نوعیت کی پہلی بڑی کارروائی تھی۔
پولیس کے آفیسر یونس مگسی نے بتایا کہ مسلح افراد نے تحصیل آفس پر حملہ کیا تو ان کے ساتھ سب سے پہلا مقابلہ سی ٹی ڈی اور پولیس کا ہوا۔
انھوں نے بتایا کہ سی ٹی ڈی کے اہلکار بکتر بند گاڑی میں آگے تھے جبکہ پولیس ان کی پشت پر تھی۔ انھوں نے راکٹ داغنے کے علاوہ دیگر اسلحے سے حملے کیئے لیکن بکتر بند گاڑی میں ہونے کی وجہ سے سی ٹی ڈی اور پولیس کے اہلکار محفوظ رہے۔
انھوں نے کہا کہ حملے کے ساتھ ہی فرنٹیئر کور کی نفری بھی آئی اور مختلف علاقوں میں مسلح افراد کی موجودگی تک ان کے درمیان مقابلہ ہوتا رہا۔
ہیلی کاپٹروں کی پروازیں اور انٹرنیٹ کی بندش
صحافی فیض درانی نے بتایا کہ تحصیل آفس پر حملے اور شہر کے مختلف علاقوں میں مسلح حملہ آوروں کی آمد کے بعد شہر میں دکانیں، دفاتر اور سکول وغیرہ بند ہوگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ سہہ پہر تین بجے تک کلیئرینس آپریشن مکمل ہوگیا تھا لیکن اس کے بعد شہر میں دکانیں وغیرہ نہیں کھلیں بلکہ رات گئے تک بند رہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس حملے کے باعث جہاں شہر اور اس کے نواحی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی نقل و حمل میں اضافہ ہوا بلکہ شہر کی فضا میں ہیلی کاپٹر بھی رات دیر تک چکر لگاتے رہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد شہر میں موبائل فون پر انٹرنیٹ سروس بھی بند ہوگئی جس کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
’حملہ آوروں اور ان کے پشت پناہوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا‘
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے ایک بیان میں مستونگ میں تحصیل آفس، بینک اور دیگر عمارات پر ’دہشت گردانہ‘ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام اور ریاستی ادارے مل کر ایسی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’مستونگ میں سکیورٹی فورسز کے بروقت اور مؤثر ردعمل نے حملہ آوروں کے عزائم خاک میں ملا دیا۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ ’بلوچستان میں اب کسی بھی دہشت گرد، سہولت کار یا بیرونی ایجنڈے کے حامل عناصر کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سکیورٹی ادارے مکمل اختیارات کے ساتھ کارروائی جاری رکھیں گے اور حملہ آوروں سمیت ان کے پشت پناہوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘
مستونگ کہاں واقع ہے؟
مستونگ شہرضلع مستونگ کا ہیڈ کوارٹر ہے اور یہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے جنوب میں اندازا پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس ضلع کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو کہ شورش سے زیادہ متاثر ہیں۔
مستونگ میں اگرچہ بلوچ عسکریت طویل عرصے سے متحرک ہیں تاہم مستونگ شہر اور اس کے مختلف علاقوں میں مذہبی شدت پسند تنظیمیں بھی سرگرم عمل رہی ہیں۔
تاہم مذہبی شدت پسند تنظیموں کی کارروائیاں ماضی کے مقابلے میں کم ہوگئی ہیں لیکن ان میں انسانی جانوں کا ضیاع زیادہ رہا ہے۔ گزشتہ چند سال کے دوران مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے مستونگ میں ہونے والی بعض بڑی کارروائیوں کی ذمہ داریاں کالعدم تنظیم داعش کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران مستونگ کے مختلف علاقوں میں بلوچ عسکریت تنظیوں کی کارروائیوں میں تیزی اور اضافہ دیکھنے میں آئی ہے۔
گزشتہ دو ڈھائی ہفتوں کے دوران مستونگ میں کردگاپ، دشت اور ولی خان کے علاقوں میں لیویز فورس کے تھانوں کو نذر آتش کرنے کے علاوہ مسلح افراد ان سے اسلحہ بھی لے گئے۔
کردگاپ کے علاقے میں نادرا آفس کو نذر آتش کرنے کے علاوہ دو دیگر سرکاری دفاتر کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
اگرچہ بلوچستان میں لیویز فورس اور عام پولیس دہشت گردی جیسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے نہیں ہیں تاہم فرائض میں غفلت کی بنیاد پر کردگاپ اور دشت میں لیویز فورس کے 30 اہلکاروں کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔
مستونگ کے مقامی حکام کے مطابق گزشتہ ایک ڈیڑھ ہفتے کے دوران مستونگ میں کوئٹہ کراچی شاہراہ پر کھڈکوچہ پر ناکہ بندی کے علاوہ معدنیات لے جانے والی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔
مقامی حکام کے مطابق کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ان حملوں میں دس سے زائد گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ جبکہ اس سے قبل کردگاپ میں ناکہ بندی کے دوران کوئٹہ تفتان شاہراہ پر ناکہ بندی میں ایران سے گیس لانے والے بعض ٹینکروں کو نقصان پہنچایا گیا۔
گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران مستونگ میں بلوچ عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی ذمہ داریاں بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔