لامتناہی سیاسی مزاحمت
ٹی بی پی اداریہ
ڈیڑھ سال پہلے بلوچستان کے شہر تربت سے جبری گمشدگیوں، حراستی قتل اور ریاستی جبر کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک ابھری، جس نے اسلام آباد میں دو مہینے دھرنا دیا تاکہ بلوچستان میں جاری ریاستی جبر و استبداد کی پالیسیوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ تاہم ڈیڑھ سال بعد، اسلام آباد میں جبری گمشدہ افراد اور پابند سلاسل سیاسی رہنماؤں کے لواحقین دوبارہ دھرنا دے رہے ہیں تاکہ ان سیاسی رہنماؤں کی بازیابی کے لیے آواز بلند کی جا سکے، جو ریاستی جبر کے خلاف اسلام آباد میں متحرک تھے۔
اسلام آباد میں ڈیڑھ سال پہلے بلوچستان میں ریاستی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج سیاسی تحریک کو جس ریاستی رویے کا سامنا تھا، آج ان کے لواحقین بھی انہی رویوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ چار دنوں سے ریاستی ادارے پابند سلاسل سیاسی رہنماؤں کے لواحقین کو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور موسلادھار بارش میں بھی انہیں ٹینٹ لگانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
بلوچستان کے متنازع وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ ریاستی جبر کے خلاف ابھری سیاسی تحریک کو بلوچستان کے سلگتے حالات اور بدامنی کا ذمہ دار قرار دیتے تھے، اور ان کی گرفتاری سے بلوچستان کی شاہراہوں پر امن قائم ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما ماہ رنگ بلوچ، بیبگر بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، بیبو کمبرانی اور گل زادی بلوچ چار مہینوں سے پابند سلاسل ہیں، جبکہ ان کی گرفتاری کے بعد بلوچستان کے سنگین حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی عدالتیں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہیں اور بلوچ رہنماؤں کے کیس میں جانبداری کا مظاہرہ کر کے ریاست کی مقتدر قوتوں کی پالیسیوں کا حصہ بن چکی ہیں۔ پاکستان کی مقتدر قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ جبر و استبداد سے سیاسی مزاحمت کو ختم کیا جا سکتا ہے، تاہم بلوچ رہنماؤں کا چار مہینوں سے جیل میں ریاستی اداروں کے غیر آئینی اقدامات کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ سیاسی مزاحمت کے راستے وقتی طور پر مسدود کیے جا سکتے ہیں، لیکن اگر ریاستی جبر کی پالیسیاں جاری رہیں تو بلوچستان سے مزاحمتی سیاسی تحریکیں ابھرتی رہیں گی۔