سانحہ ڈغاری – ذوالفقار علی زلفی

72

سانحہ ڈغاری

تحریر: ذوالفقار علی زلفی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل نئی چیز نہیں ہے ـ سیاہ کاری ہمارے سماج میں ایک معمول کا واقعہ سمجھا جاتا ہے ـ ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان ہر مہینے دو تین ریکارڈز آنر کلنگ کی رپورٹیں شائع کرتا ہے ـ کونسل صرف وہ رپورٹیں شائع کرتا ہے جو دستاویزی صورت میں درج ہوں وگرنہ بلوچستان کے طول و عرض میں متعدد چیخیں دب جاتی ہیں ـ

حالیہ سانحہ بھی ایک معمول کے واقعے کی طرح دب جاتا اگر قاتل اپنی سفاکیت کو خود ویڈیو کی صورت محفوظ کرکے شیئر نہ کرتے ـ اس ویڈیو پر مختلف اقسام کے ردعمل سامنے آئے مگر دو رجحانات حاوی رہے؛ ایک گروہ نے سانحے کو افسانوی رنگ دے کر مقتول خاتون کو ہمت و جرات کا استعارہ قرار دیا ـ دوسرے گروہ (بیشتر پنجابی) نے اس سانحے کو بنیاد بنا کر بلوچ قومی تحریک کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بیہودہ کوشش کی ـ

بلوچستان میں سیاہ کاری ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے ـ پیچیدہ پیداواری رشتے، طویل نوآبادیاتی نظام اور اس کے نتیجے میں قبائلی نظم و ضبط کی شکست و ریخت نے صنفی سوال کو از حد گنجلک بنا دیا ہے ـ نوآبادیاتی جبر، پرتشدد قومی تحریک، عورت کا اس میں فعال کردار اور سوشل میڈیا کے بڑھتے استعمال نے معاملے کی پیچیدگی کو مزید بڑھاوا دیا ہے ـ اس تناظر میں مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو افسانوں، ناولوں یا فلموں کی صورت بیان کرنا آگاہی بڑھا سکتا ہے لیکن کسی مخصوص حقیقی سانحے کو افسانہ بنا کر پیش کرنا سانحے کی شدت کو کم کرنے کا سبب بن جاتا ہے ـ

حالیہ سانحہ جس میں احسان سمالانی اور بانو ساتکزئی کو پسند کی شادی کرنے کی پاداش میں باقاعدہ جرگے کے ذریعے گولی مار کر قتل کیا گیا کو افسانہ بنا کر پیش کرنا، حقیقی کرداروں کو شیتل و زرک کے نام سے معروف کرکے لڑکی کی عظمت کے گُن گانا مسئلے کی تفہیم میں مدد کرنے کی بجائے اسے گلوریفائی کرتا نظر آیا ـ لڑکی کا جملہ “صرف گولی مارنے کی اجازت ہے اس کے سوا کچھ نہیں” کسی جرات مندی کی نہیں بیچارگی اور عدم تحفظ کی علامت ہے ـ یقیناً سماج کے ٹھیکے داروں نے جرگے کے ذریعے صرف گولی مار کر قتل کرنے کا فیصلہ سنایا ہوگا ـ لڑکی اپنے قاتلوں کو یاد دلا رہی ہے کہ ہمیں صرف قتل کرنے کا حکم ملا ہے تشدد یا توہین سے گریز کیا جائے ـ اس کے باوجود احسان کو متعدد گولیاں مار کر اس کے خون سے ہاتھ دھونے کا وحشت ناک عمل بھی انجام دیا جاتا ہے ـ اس پورے واقعے کی ویڈیو بنا کر دیگر خواتین کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اختیار اور آزادی کے مطالبے کی کیا قیمت ادا کرنی ہوگی ـ

قومی جبر کا شکار بلوچ معاشرہ ہمہ اقسام کے تشدد کا روزانہ مشاہدہ و تجربہ کرتے کرتے خود بھی ایک متشدد سماج بن چکا ہے ـ قدیم روایات اور جدید معیارِ زندگی کے تضادات نے معاشرے کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیے ہیں ـ تشدد کے اس سلسلے کی سب سے بڑی قیمت محنت کش طبقے کی عورتیں اور بچے ادا کر رہے ہیں ـ یہ عمل کسی بھی صورت گلوریفائی کرنے کی متقاضی نہیں ہے ـ بانو کوئی مزاحمت کار نہیں تھی ـ وہ ایک عام سی لڑکی تھی جس نے اپنے جواں سپنوں کو تعبیر دینے کا فطری قدم اٹھایا اور اس کی پاداش میں بے رحمی سے قتل کردی گئی ـ بانو سمیت سیاہ کاری کے نام پر قتل کی گئیں اور مستقبل میں قتل ہونے والی تمام عورتیں زندگی اور آزادی کی طلب گار ہیں ـ انہیں سوشل میڈیائی ٹرینڈز بنا کر دو دن کا ماتم کرنا دوہرا ظلم ہے ـ ہم جانتے ہیں سیاہ کاری محض نام نہاد غیرت سے منسلک نہیں ہے ـ اس قبیح رسم کے ذریعے پیسے کمانے کی ہوس بھی شامل ہے ـ اسی طرح وٹہ سٹہ، کم عمری کی شادی اور خون بہا کے طور پر اس کی دشمن کو حوالگی بھی قتل کے مترادف ہیں ـ

اب چوں کہ صنفی جبر کوئی علیحدہ اکائی نہیں بلکہ اس کا قومی و طبقاتی جبر سے گہرا تعلق ہے اس لئے چند افراد کو سزائیں دینے یا لعن طعن کرنے سے کسی حل کی امید رکھنا عبث ہے ـ یہ ہمہ گیر ، طویل اور صبر آزما جدوجہد ہے ـ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خواتین قیادت سے امید کی جاسکتی ہے کہ وہ قومی جبر کے پہلو میں اپنی صنف پر جاری تشدد کے خلاف بھی عوام کو منظم کرے ـ

دوسرا گروہ یعنی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ افراد جنہوں نے اس سانحے کو بلوچ تحریک کے خلاف بیانیہ بنانے کا سنہری موقع سمجھا، ہماری نسبت زیادہ مریضانہ کیفیت میں مبتلا ہیں ـ وہ سیاہ کاری کی منفی روایت سے نبرد آزما بلوچ عورت کی بے بسی اور مظلومیت کو ریاستی بیانیے کی حقانیت ثابت کرنے کا ہتھیار بنانے کی غیر انسانی حرکت میں مشغول ہیں ـ بلوچ عورت سے صرف سیاہ کاری کے نام پر زندگی نہیں چھینی جا رہی بلکہ اس کا گلا جبری گم شدگان کے متاثرین کی صورت بھی کاٹا جارہا ہے ـ محنت کش بلوچ عورت قومی، طبقاتی اور صنفی تشدد کا بیک وقت سامنا کر رہی ہے جس نے اس کی زندگی کو مرد کی نسبت زیادہ مشکل اور بدنما بنا رکھا ہے ـ ایسے میں اس پر جاری صنفی جبر کو اس پر ہونے والے طبقاتی و قومی جبر کا جواز بنانا ایک نئی قسم کا تشدد ہے ـ

میری نگاہ میں ریاستی بیانیے سے چپکے افراد کے بیہودہ مباحث کو نظر انداز کرکے ہمیں اپنے سماج کو مزید بہتر بنانے کی جانب توجہ دینی چاہیے ـ ہمیں ہر بانو اور احسان کے لئے لڑنا ہوگا ـ صرف اس لئے نہیں کہ انہیں محبت کرنے کی آزادی ملے بلکہ اس لئے کہ وہ ایک آزاد انسان کی صورت زندہ رہ سکیں ـ کوئی بانو بندوقوں کے سائے میں درخواست نہ کرے کہ صرف گولی مارو یا میرے شوہر کو میرے بعد قتل کرو ـ یاد رہے، بانو کا شوہر صرف قتل نہیں ہوتا یا خود بانو محض قتل نہیں ہوتی بلکہ بانو کا شوہر جبراً لاپتہ بھی ہوتا ہے، اس کی مسخ لاش بھی ملتی ہے، بانو کو دیکھ کر نوآبادیاتی جج عدالت چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے، مقید بانو اپنے ہتھکڑی لگے والد کو گلے لگاتے روہانسی بھی ہوتی ہے ـ

یہ جدوجہد طویل اور صبر آزما ہے ـ متاثرین کو گلوریفائی کرکے ذہنی مشت زنی کی بجائے بے رحم حقائق کا بے رحمی سے سامنا کرنا ہوگا ـ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔