زیشان زہیر کا قتل
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب ریاستی جبر کے شکار افراد کسی نئے المیے سے دوچار نہ ہوں۔ پنجگور کے رہائشی زیشان زہیر کی کہانی بھی ایسے ہی ایک نہ ختم ہونے والے سانحے کی تازہ قسط ہے۔ زیشان کے والد، زہیر بلوچ کو تیرہ اپریل 2015 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، اُس وقت زیشان محض گیارہ برس کا بچہ تھا۔ بچپن، لڑکپن اور جوانی کے یہ قیمتی سال اُس نے اپنے والد کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتے، آواز بلند کرتے گزارے — یہاں تک کہ 29 جون 2025 کو ریاستی ڈیتھ اسکواڈ نے اسے پنجگور کے علاقے خدابادان سے اغوا کیا اور اگلی صبح اس کی گولیوں سے چھلنی لاش پھینک دی گئی۔
زیشان زہیر اور اُن کے اہلِ خانہ کو ریاستی مظالم کے خلاف بولنے اور اپنی مزاحمت ترک نہ کرنے کے باعث بارہا سنگین دھمکیاں دی گئی تھیں۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، اجتماعی سزا کے ہتھکنڈوں، اور ماورائے آئین ریاستی تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو مختلف شکلوں میں خاموش کرنے کی منظم کوششیں جاری ہیں ، کبھی دھمکی، کبھی گمشدگی، اور کبھی لاش۔
گزشتہ مہینوں کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریاستی تحویل میں جبری طور پر لاپتہ افراد کے ماورائے عدالت قتل میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 28 جون کو ضلع دُکی میں تین نوجوانوں کو جعلی مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا، حالانکہ وہ طویل عرصے سے ریاستی اداروں کی تحویل میں تھے۔ ان کی شناخت وزیر خان سہلانی ولد ریحان (آٹھ ماہ سے لاپتہ)، صحبت خان ولد خمیس (دو ماہ سے لاپتہ)، اور علی ولد وزیر احمد ڈینگنانی بزدار (گیارہ ماہ سے لاپتہ) کے نام سے ہوئی۔ یہ جون کے مہینے میں ضلع دُکی میں جعلی مقابلے کا دوسرا واقعہ ہے، جس میں جبری گمشدہ افراد کو قتل کرکے اُن پر مزاحمت کا الزام لگایا گیا۔
زیشان زہیر کا قتل بلوچستان میں جاری انسانی المیوں کا ایک تسلسل ہے، جہاں صرف افراد کو نہیں بلکہ پورے سماج کی اجتماعی مزاحمت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جبری گمشدہ افراد کے خاندان دوہرے کرب سے گزر رہے ہیں ، ایک طرف وہ اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کا غم سہہ رہے ہیں، تو دوسری طرف ریاستی انتقام کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔