بلوچ علیحدگی پسند اور امریکی سٹریٹیجک مفادات کا نیکسس؟
تحریر: ثقلین امام
دی بلوچستان پوسٹ
میں نے حال ہی میں ایک چونکا دینے والا دعویٰ سنا جو سابق امریکی میرین اور اب تھائی لینڈ میں مقیم اینٹی اسٹیبلشمنٹ جیوپولیٹیکل تجزیہ کار برائن برلیٹک (Brian Berletic) نے یوٹیوب پر نارویجن سرگرم کارکن اور ماہرِ تعلیم پروفیسر گلین ڈیسن (Prof. Glenn Diesen) کے چینل پر 15 جولائی کو نشر ہونے والے ایک ٹاک شو میں کیا۔ برلیٹک نے کہا: “امریکہ کے حمایت یافتہ جنگجو بلوچستان، پاکستان میں چینی انجینئروں اور ان کی حفاظت پر مامور پاکستانی سکیورٹی فورسز کو قتل کرتے ہیں۔” برائن برلیٹک کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ امریکی حمایت یافتہ جنگجو میانمار میں بھی چینی انجینئروں کو قتل کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ دعویٰ کسی سرکاری دستاویز سے تصدیق شدہ نہیں، لیکن اوپن سورس جیوپولیٹیکل تجزیوں میں اس کی مثالیں پہلے سے موجود ہیں۔
ریڈیو فری یورپ (Radio Free Europe – RFE)، یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس (U.S. Institute of Peace – USIP)، اور جریدے جیسے فارین پالیسی (Foreign Policy) اور دی ڈپلومیٹ (The Diplomat) اس بات کو دستاویزی شکل میں لا چکے ہیں کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد وہاں چھوڑی گئی امریکی جدید اسلحے کی بڑی مقدار نے بلوچ علیحدگی پسند گروہوں جیسے بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور اسلام پسند تنظیموں جیسے تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا۔ فارین پالیسی نے 2019 میں BLA کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے امریکی فیصلے پر اپنی رپورٹنگ میں افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں پر خدشات ظاہر کیے اور یہ وضاحت کی کہ یہ امریکہ کی چین-پاکستان اتحاد کے خلاف وسیع تر حکمت عملی سے کیسے جُڑے ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا ڈسکشن فورم “ریڈِٹ” (Reddit) جیسے فورمز پر، جہاں سابق دفاعی کنٹریکٹرز اور آزاد تجزیہ کار بحث کرتے ہیں، کئی صارفین نے براہِ راست سی آئی اے (CIA) اور نیشنل انڈومنٹ فار ڈیموکریسی (National Endowment for Democracy – NED) پر بلوچ علیحدگی پسندوں کو مالی امداد فراہم کرنے کا الزام لگایا تاکہ پاکستان اور ایران کے خلاف ریاستی سرپرستی میں عدم استحکام پیدا کیا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ BLA صرف چینی اہداف کو نشانہ بناتی ہے، جو امریکہ اور انڈیا کے خطے میں سٹریٹجک مفادات سے ہم آہنگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک دہائی پہلے، فارن پالیسی میگزین نے بھی 13 جنوری 2013 کو ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا: “False Flag”۔ اس مضمون میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد (Mossad) کے بلوچستان میں بغاوتوں کی پشت پناہی کے لیے سی آئی اے کا نام استعمال کرنے پر روشنی ڈالی گئی، تاکہ ایران کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔
اگرچہ ان جنگجوؤں کی براہِ راست امریکی سرپرستی سرکاری طور پر تسلیم نہیں کی گئی، لیکن اسلحہ کے پھیلاؤ، جیوپولیٹیکل مواقع اور سٹریٹیجک خاموشی کے امتزاج سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ واشنگٹن اور بلوچ باغی نیٹ ورکس کے درمیان مفادات کی ایک خاموش اور غیر رسمی ہم آہنگی موجود ہے جو ان کے درمیان ایک “نیکسس” ہونے کا اشارہ بنتا ہے۔ یہی تناظر ہمیں بلوچ علیحدگی پسندی اور امریکی خطے میں مفادات کے ارتقائی تعلق کو سمجھنے کے لیے درکار ہے۔
بلوچ علیحدگی پسندی: تاریخی پس منظر اور جغرافیائی حکمت عملی
بلوچ بغاوت پاکستان میں آزادی کے اوائل ہی سے جاری ہے، جس کے مختلف ادوار 1948، 1958، 1973، اور سب سے شدت سے 2006 کے بعد ابھرے۔ اگرچہ اس تحریک کا بنیادی لہجہ قوم پرستانہ ہے—یعنی زیادہ خودمختاری یا مکمل آزادی کا مطالبہ—مگر اس کی جغرافیائی حیثیت، جو ایران اور افغانستان سے متصل پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع ہے اور بحیرہ عرب سے بھی جُڑی ہوئی ہے، بلوچ مسئلے کو غیر معمولی سٹریٹیجک اہمیت دے دیتی ہے۔
بلوچستان میں واقع گوادر بندرگاہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (Belt and Road Initiative – BRI) کا ایک کلیدی مرکز ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت اس کی ترقی بیجنگ کو آبنائے ملاکا (Strait of Malacca) کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست بحیرہ عرب کے پانیوں تک رسائی فراہم کرتی ہے۔ امریکہ کے لیے، جو طویل عرصے سے چین کے پھیلاؤ کو روکنے اور ایران کے علاقائی اثر کو محدود کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے، یہ بندرگاہ—اور اس کے علیحدگی پسندوں کے ذریعے عدم استحکام کا شکار ہونے کا امکان—ایک سٹریٹیجک موقع فراہم کرتی ہے۔
خطے میں امریکی مفادات
2001 میں 9/11 (نائن الیون) کے حملوں کے بعد افغانستان میں امریکی موجودگی، ایران کے خلاف پابندیاں، اور چین کے خلاف انڈو پیسیفک خطے میں روک تھام کی حکمت عملی، ان تمام عوامل نے پاکستان-ایران-چین مثلث پر امریکی توجہ میں اضافہ کیا ہے۔ اس تناظر میں بلوچ علیحدگی پسند ایک مفید دباؤ کے ذریعہ کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ بلوچوں کی مزاحمت یا لڑائی کے پیچھے اُن کی اپنی شکایتیں یا محرومیاں نہیں ہیں۔ اس مثلث کے خلاف امریکی مفادات کیا ہیں:
چین کے خلاف مزاحمت:
“سی پیک” (CPEC) کو غیر مستحکم کر کے—خاص طور پر بلوچستان میں واقع بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو نشانہ بنا کر—امریکہ نظریاتی طور پر چین کی بحیرہ عرب میں معاشی بنیاد کو کمزور کر سکتا ہے۔ BLA اور بلوچ راجی آجوئی سنگر (BRAS) کی طرف سے چینی انجینئروں، مزدوروں، اور قونصل خانوں پر متعدد حملے اس بات کا عملی اظہار ہیں کہ ان کے آپریشنل اہداف امریکی تشویشات کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
ایران کا گھیراؤ:
ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان، جو پاکستانی بلوچستان سے متصل ہے، وہاں بھی بلوچ آبادی بے چینی کا شکار ہے۔ ایران مخالف امریکی پالیسی، خاص طور پر نیوکان (neoconservative) یا جارح حکومتوں کے تحت، اس امکان کو جنم دیتی ہے کہ بلوچ نسلی گروہوں کو عدم استحکام کے لیے پراکسی کے طور پر استعمال کیا جائے۔ ایران بارہا امریکہ اور اسرائیل پر گروہوں جیسے جیش العدل (Jaish al-Adl)—جو ایک سنی بلوچ مسلح تنظیم ہے اور سرحد پار حملوں میں ملوث ہے—کی پشت پناہی کا الزام لگا چکا ہے۔
افغان جنگی نظام کے باقیات:
2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بڑی مقدار میں فوجی ساز و سامان پیچھے چھوڑا گیا۔ ریڈیو فری یورپ، USIP، اور پاکستانی انٹیلیجنس کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ امریکی اسلحہ—خصوصاً M4/M16 رائفلز اور نائٹ وژن آلات—اب بلوچ علیحدگی پسندوں اور TTP کے ہاتھوں میں نظر آ رہا ہے، جس سے یہ سوال مزید تقویت پکڑتا ہے کہ ایسے گروہوں کو مغربی اسلحے تک رسائی کیسے حاصل ہوئی۔
نظریاتی فریم ورک اور جلاوطن بلوچوں کی لابنگ
جہادی گروہوں کے برعکس، بلوچ علیحدگی پسند اپنی جدوجہد کو سیکولر قوم پرستی، جمہوریت اور نسلی خودارادیت کے تناظر میں پیش کرتے ہیں—ایسی اقدار جو مغربی لبرل بیانیے سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اس نظریاتی ہم آہنگی نے یورپ اور شمالی امریکہ میں مقیم جلاوطن بلوچ کارکنوں کو تھنک ٹینکس، انسانی حقوق کی تنظیموں اور حتیٰ کہ امریکی کانگریس کے بعض اراکین کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں مدد دی ہے۔ بلوچ امریکن کانگریس (Baloch American Congress) مثلاً، امریکی قانون سازوں سے پاکستانی ریاست کے مبینہ مظالم کو تسلیم کرنے اور بین الاقوامی فورمز پر بلوچ مسئلہ اٹھانے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
یہ لابنگ، اگرچہ براہِ راست امریکی ریاستی معاونت کا ثبوت نہیں، مگر ایک ہمدرد اتحاد کی نشاندہی کرتی ہے، جس میں بلوچ شکوے امریکی پالیسی سازوں کے لیے سٹریٹیجک طور پر کارآمد ہو جاتے ہیں، خواہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہوں، “سی پیک” (CPEC) کو نقصان پہنچانے کے لیے ہوں، یا چین کی کمزوریوں کو اجاگر کرنے کے لیے ہوں۔
دوغلا پن: عوامی مذمت، نجی افادیت؟
یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ بی ایل اے (BLA) کو 2019 میں امریکی محکمہ خارجہ نے غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (Foreign Terrorist Organization – FTO) قرار دیا، اور وہ بھی ایسے وقت میں جب بی ایل اے (BLA) چینی شہریوں پر حملے کر رہی تھی۔ بظاہر یہ اقدام امریکی مفادات کے خلاف معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کے وقت اور اثرات مبہم ہیں۔ یہ فیصلہ اُس وقت سامنے آیا جب امریکہ-پاکستان تعلقات کشیدہ تھے اور پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اپنے عروج پر تھی۔
مزید یہ کہ اس اعلان کے بعد نہ تو کوئی واضح کارروائی ہوئی اور نہ ہی امریکی پالیسی میں تبدیلی آئی۔ بلکہ امریکہ اور مغربی ممالک میں مقیم قوم پرست بلوچ گروپوں نے بی ایل اے کے حق میں لابنگ بھی کی مگر امریکی قوانین کے مطابق ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یہ دوہرا پن—ظاہری مذمت کے ساتھ اندرونی ہم آہنگی—کئی تجزیہ کاروں کو اس نتیجے پر لے آئی ہے کہ یہ اعلان محض سفارتی مقصد رکھتا تھا، جبکہ اصل میں خاموش حمایت یا بالواسطہ فائدہ برقرار رہا۔
یہ حکمت عملی شام کی امریکی پالیسی سے مشابہت رکھتی ہے، جہاں داعش اور دیگر باغی یا دہشت گرد گروہوں کی سرکاری سطح پر مذمت تو کی جاتی تھی، لیکن ترکی (Türkiye) کے ذریعے انٹیلیجنس اور اسلحہ کے نیٹ ورک اور سی آئی اے کی خفیہ کارروائیاں بشار الاسد کی حکومت کو کمزور کرنے میں انہی گروہوں کو مدد دیتی تھیں۔ دونوں صورتوں میں، مسلح گروہ وسیع تر نظام کی تبدیلی یا گھیراؤ کی کوشش میں استعمال ہونے والے قابلِ استعمال (dispensable) عناصر بن جاتے ہیں، جبکہ عوامی بیانیہ زمینی حقیقتوں سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔
پاکستان کی مشکل پوزیشن: خاموشی، انکار، اور مبہم حکمت عملی
چینی اہلکاروں اور سٹریٹیجک اثاثوں پر بار بار ہونے والے حملوں کے باوجود، پاکستانی حکام شاذ و نادر ہی بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ امریکی “نیکسس” کا ذکر کرتے ہیں۔ عام طور پر الزام بھارت، افغانستان یا ایران پر لگایا جاتا ہے، کبھی کسی امریکی ادارے پر نہیں۔ امریکہ کے بارے میں یہ خاموشی کئی وجوہات کی بنا پر ہو سکتی ہے۔ اول، اسلام آباد کا بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر انحصار—جو کہ زیادہ تر مغربی طاقتوں کے زیر اثر ہیں—اس کی سفارتی آزادی کو محدود کرتا ہے۔ دوم، پاکستانی فوج امریکی مخالفت یا مغربی اتحادیوں کو ناراض کرنے سے بچنے کے لیے دانستہ خود کو خاموش رہتی ہے، چاہے حقائق واضح ہی کیوں نہ ہوں۔
اس کے علاوہ، بلوچستان میں جائز سماجی و معاشی شکایات اور مسلح علیحدگی پسندوں کے اقدامات میں فرق نہ کرنے کی ریاستی ناکامی نے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ تمام بلوچ اختلافات—خواہ وہ پُرامن ہوں یا پرتشدد— ان کو سکیورٹی کے دائرے میں لانے سے مقامی آبادی کی ریاست سے دوری میں اضافہ ہوا ہے اور باغی جنگجوؤں کو اخلاقی جواز حاصل ہوا۔ ترقیاتی ایجنڈے اور انسدادِ بغاوت کی پالیسی کو الگ الگ رکھنے کے بجائے، اسلام آباد نے اکثر فوجی حل اپنایا، جس سے وہی بغاوت مزید مضبوط ہوئی جس کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
بغیر کسی رسمی معاہدے کے سٹریٹیجک ہم آہنگی
دستیاب شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے درمیان کوئی کھلا یا رسمی اتحاد نہیں ہے۔ لیکن ان کے جیوپولیٹیکل مفادات کئی معنوں میں ہم آہنگ ہیں: بلوچ بغاوت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی “سی پیک” (CPEC) کو غیر مستحکم کرتی ہے، چین کی سرمایہ کاری (گوادر) کو خطرے میں ڈالتی ہے، اور ایران کی مشرقی سرحد پر دباؤ بڑھاتی ہے—یہ تمام عوامل امریکہ کے طویل المدتی علاقائی اہداف سے مطابقت رکھتے ہیں۔
یہ “سٹریٹیجک نیکسس”، چاہے کسی ادارے نے بنایا ہو یا حالات سے پیدا ہوا ہو، جدید پراکسی جنگوں کی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ جب بڑی طاقتیں خطے کی شوریدہ تحریکوں کے سائے میں اپنی چالیں چلتی ہیں، تو بی ایل اے (BLA) جیسے گروہ بیک وقت مذمت کا نشانہ بھی بنتے ہیں اور خاموشی سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں—نہ کہ براہِ راست فنڈنگ یا اسلحے سے، بلکہ اُس غیر یقینی انتشار کے ذریعے جو عالمی طاقتوں کی خفیہ چالوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔
پاکستانی ریاست کی یہ صلاحیت—یا شاید عدمِ خواہش—کہ وہ خارجی استحصال اور داخلی بے چینی دونوں سے نمٹ سکے، اسی خلا کو بڑھاتی ہے جس میں ایسی ہم آہنگیاں اور نیکسس پروان چڑھتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں پاکستانی ریاست کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس نے پرامن احتجاج اور دہشت گردی میں فرق نہ رکھ کر تقریباً تمام بلوچ نوجوانوں کو حاشیے پر کھڑا کردیا ہے اور یہ اب ریاست مہ رنگ بلوچ اور بندوق برداروں میں فرق بھی نہیں جانتی ہے۔
اگر صورتحال بگڑتی ہے تو نہ امریکہ پر انگلی اٹھائی جا سکے گی، نہ عام بلوچ کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکے گا، جب ریاست اپنی نااہلی چھپانے کے لیے صرف بندوق کا سہارا لے گی، تو وہ دانستہ طور پر اپنے وجود کو کمزور کرے گی اور تباہی کی ذمہ دار خود ہو گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔