بلوچستان: جبری گمشدگیوں اور قابض پاکستانی جبر کی المناک حقیقت
تحریر: صاحب داد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان، وہ سرزمین جو اپنی قدرتی وسائل کی فراوانی اور ثقافتی تنوع کے لیے جانی جاتی ہے، برسوں سے قابض پاکستانی ریاست کے جبر اور تشدد کا شکار ہے۔ حالیہ عرصے میں، جبری گمشدگیوں اور بلوچ نوجوانوں کی لاشوں کو مسخ کرکے پھینکنے کے واقعات نے ایک نئی، خوفناک شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ ایک ایسی منظم پالیسی کا عکاس ہے جو نہ صرف بلوچ عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کر رہی ہے بلکہ ان کے قومی وجود کو ختم کرنے کی دانستہ کوشش کر رہی ہے۔
ماضی میں جب کوئی بلوچ نوجوان جبری طور پر غائب کیا جاتا تھا، تو اس کے لواحقین احتجاج، دھرنوں، اور سڑکوں کی بندش کے ذریعے اپنی آواز اٹھاتے تھے اس امید کے ساتھ کہ ان کا پیارا واپس لوٹ آئے گا۔ یہ احتجاج بعض اوقات کامیاب بھی ہوتے تھے کیونکہ ان سے قابض پاکستانی اداروں پر دباؤ بڑھتا تھا۔ تاہم اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ قابض پاکستانی مشینری نے اپنی حکمت عملی کو مزید سفاک بناتے ہوئے ایک نئی پالیسی اپنائی ہے، جسے “مارو اور پھینکو” کہا جا سکتا ہے۔ اس پالیسی کے تحت، جبری طور پر اٹھائے گئے افراد کو فوری طور پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہیں قتل کیا جاتا ہے، اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں، جنگلوں، یا سڑکوں کے کناروں پر پھینک دی جاتی ہیں۔ اس کا مقصد واضح ہے کہ لواحقین کو احتجاج کا موقع دینے سے پہلے ہی انہیں اپنے پیاروں کی تدفین پر مجبور کرنا، تاکہ خوف پھیلے، خاموشی مسلط ہو، اور بلوچ عوام کی مزاحمتی آواز دب جائے۔
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ جہاں ایک طرف قابض پاکستانی مشینری اس سفاکانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے، وہیں لواحقین کی خاموشی اور فوری تدفین اس عمل کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ اگر بلوچ عوام اس کے خلاف متحد ہو کر، جیسے کہ بالاچ کے واقعے میں لاش کے ساتھ دھرنا دیا گیا تھا، بڑے پیمانے پر احتجاج کریں تو شاید اس پالیسی کی شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اگر مختلف شہروں جیسے کوئٹہ، تربت، گوادر، خضدار، اور پنجگور میں لاشوں کے ساتھ دھرنوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا جائے، تو قابض اداروں پر دباؤ بڑھ سکتا ہے کہ وہ قتل سے پہلے دوبارہ سوچیں۔ لیکن بدقسمتی سے، خوف اور بے بسی نے بہت سے لواحقین کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جو اس ظلم کو اور بڑھاوا دے رہی ہے۔
بلوچ مزاحمت پر حملے
قابض پاکستانی جبر کا ایک اہم پہلو بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) جیسے تنظیموں کی قیادت کو نشانہ بنانا ہے۔ بی وائی سی اور اس جیسی دیگر تنظیمیں بلوچ عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں اور جبری گمشدگیوں سمیت دیگر مظالم کو بے نقاب کرتی ہیں۔ لیکن قابض پاکستانی مشینری نے ان کی قیادت کو منظم طریقے سے جبری طور پر لاپتہ کرکے، تشدد کا نشانہ بنا کر، اور قتل کرکے بلوچ مزاحمت کی ریڑھ کی ہڈی توڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی گرفتاریاں اور قتل نہ صرف ان کے خاندانوں کے لیے صدمے کا باعث ہیں بلکہ پورے بلوچ معاشرے میں خوف پھیلانے کا ذریعہ بھی ہیں۔
قابض پاکستانی ڈیتھ اسکواڈز کا بنیادی مقصد بلوچ عوام میں دہشت پھیلانا ہے تاکہ وہ اپنے حقوق اور آزادی کے لیے آواز اٹھانے سے گریز کریں۔ یہ ایک منظم کوشش ہے جو بلوچ قوم کے سیاسی، ثقافتی، اور سماجی وجود کو کمزور کرنے کے لیے کی جا رہی ہے لیکن یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ خوف اور خاموشی اس ظلم کو روکنے کا حل نہیں ہیں۔ اگر بلوچ عوام اس خوف کو شکست دینے کے لیے متحد ہو جائیں تو وہ اس جبر کے خلاف ایک مضبوط دیوار بن سکتے ہیں۔
لواحقین کی خاموشی اور فوری تدفین اس ظلم کو مزید تقویت دے رہی ہے۔ ماضی میں، جیسے کہ بالاچ کے واقعے میں جب لواحقین نے لاش کے ساتھ دھرنا دیا، اس نے نہ صرف مقامی بلکہ عالمی توجہ بھی حاصل کی۔ اس طرح کے احتجاج نے قابض اداروں پر دباؤ بڑھایا اور جبری گمشدگیوں کے واقعات میں وقتی طور پر کمی بھی آئی۔ لیکن اب جب لواحقین خوف یا بے بسی کے ہاتھوں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، تو یہ قابض مشینری کے لیے ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی “مارو اور پھینکو” پالیسی کو اور تیزی سے نافذ کرے۔
اگر بلوچ عوام مختلف شہروں میں متحد ہو کر لاشوں کے ساتھ دھرنوں اور ریلیوں کا اہتمام کریں تو یہ قابض پاکستانی اداروں کے لیے ایک واضح پیغام ہوگا کہ بلوچ قوم اپنی آزادی اور حقوق کے لیے خاموش نہیں رہے گی۔ اس طرح کے دھرنے نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل کر سکتے ہیں جس سے عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور میڈیا کی توجہ اس سنگین صورتحال کی طرف مبذول ہوگی۔
بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور قابض پاکستانی جبر کی یہ داستان صرف بلوچ قوم کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک چیلنج ہے۔ یہ ایک منظم کوشش ہے جو بلوچ قوم کے سیاسی، ثقافتی، اور سماجی وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے لیکن بلوچ قوم کی تاریخ جدوجہد اور مزاحمت کی تاریخ ہے۔ یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں، بلکہ متحد ہو کر مقابلہ کرنے کا ہے۔ اگر ہر گھر، ہر گلی، اور ہر شہر سے آواز اٹھے، تو یہ ظلم کمزور پڑ سکتا ہے۔
عالمی برادری، انسانی حقوق کے اداروں، اور میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کو بے نقاب کیا جا سکے۔ بلوچ عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کا دشمن خوف کے ذریعے انہیں دبانا چاہتا ہے لیکن جب تک وہ متحد ہیں اور اپنی آواز بلند کرتے ہیں، کوئی طاقت ان کے عزم کو توڑ نہیں سکتی۔ یہ وقت ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا ہے تاکہ بلوچستان میں انصاف، امن، اور آزادی کا سورج طلوع ہو سکے۔ اگر آج آواز نہ اٹھی، تو کل شاید بہت دیر ہو جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔