منتظر آنکھیں
تحریر: عرفان
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان گزشتہ سات دہائیوں سے ناانصافیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے، بلوچستان دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جس نے فوجی آپریشن، مسخ شدہ لاشیں اور اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کا درد ہر روز کی بنیاد پر سہا ہے۔ ایک دانشور کے بقول جب جنگیں ہوتی ہیں تو بوڑھے نوجوانوں کو کندھا دیتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ قول بلوچستان پر صحیح نہیں بیٹھتا کیونکہ بلوچستان میں بوڑھوں کو بھی نوجوان کندھا دے رہے ہیں اور جوانوں کو بوڑھے کندھا دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ نہ ختم ہونے والا بن گیا ہے۔ ہر روز کی بنیاد پر بوڑھے، نوجوان یہاں تک کہ بچے اور عورتیں جبری گمشدگی کا شکار بن رہی ہیں، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اللہ کسی کو بھی کم ظرف دشمن نہ دے جو رات کی تاریکی میں بچوں اور خواتین کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے۔
جبری گمشدگی کا ایک نیا کیس اس وقت سامنے آیا جب بسیمہ سے تعلق رکھنے والی چوبیس سالہ ماہ جبین جو بلوچستان یونیورسٹی کی بی ایس لائبریری سائنس کی اسٹوڈنٹ ہے، کو رات کی تاریکی میں مرد ریاستی دہشت گردوں (میں سیکیورٹی فورسز اس لیے نہیں لکھوں گا کہ سیکیورٹی فورسز کا کام لوگوں کو تحفظ دینا ہوتا ہے نہ کہ رات کی تاریکی میں لوگوں کو گھسیٹ کر جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا)، نے چھاپہ مار کر سول ہسپتال کے گرلز ہاسٹل سے ماہ جبین کو جبری طور پر لاپتہ کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا۔ اس دن سے لیکر آج کے دن تک کسی کو خبر نہیں کہ اس بلوچ بچی کو کیوں اس طرح جانوروں کی طرح (مہذب معاشروں میں جانوروں کے ساتھ بھی اس طرح کا رویہ رکھا نہیں جاتا مگر ان سے اچھے کی امید رکھنا بھی پاگلوں کے جنت میں رہنے کے مترادف ہے)، گھسیٹ کر لے جایا گیا اور وہ کہاں اور کس حال میں رکھی گئی ہے۔ جبری گمشدگی کسی بھی صورت میں جسٹیفائی نہیں ہوسکتی، اگر ایک منٹ کے لیے فرض کر لیا جائے کہ ماہ جبین سے کوئی جرم سرزد ہوئی بھی ہے تو اس کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا ایک قانونی طریقہ کار ہوتا ہے نہ کہ کسی بیمار بچے کو رات کے دو بجے ہاسٹل پر چھاپا مار کر غائب کر دیا جائے۔
یاد رہے کہ ماہ جبین کی جبری گمشدگی سے قبل ان کے بھائی کو بھی ریاستی دہشت گردوں نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ہے جس کی پھول سی بیٹی ماہ رنگ بلوچ اپنے ابو کی انتظار میں سسکیاں بھر رہی ہے۔ بلوچستان میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ بلوچ خواتین کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس سے پہلے گزشتہ سال ماہل بلوچ جو دو بچوں کی ماں ہے کو جبری طور پر اغواء کیا گیا اور اسے ایک رٹایا ہوا اسکرپٹ پڑھایا گیا۔
مجھے ایک دوست کے ذریعے ماہل بلوچ کی کہانی سننے کا اتفاق ہوا تھا کہ کس طرح کا رویہ اس کے ساتھ روا رکھا گیا اور میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور مجھ میں یہ سکت نہیں کہ وہ ماہل کے ساتھ بیتے ہوئے وہ اذیت ناک لمحے یہاں بیان کر سکوں مگر آپ پڑھنے والوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ لوگ درندوں سے بھی بدتر ہیں اور آج ہماری ایک اور بیٹی ان کے قید میں بند ہے۔
ماہ جبین بلوچ اور باقی بلوچ خواتین کو جبری گمشدہ کرنے کی واحد اور صاف وجہ بلوچستان میں ہونے والی ریاستی جبر پر بلوچ خواتین کی بیش بہا جدوجہد ہے۔ بلوچ خواتین نے اپنی قابلیت اور جہد مسلسل سے بلوچ مسئلے کو عالمی سطح تک پہنچا دیا ہے اور آج دنیا بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہے کہ پاکستانی ریاست بلوچستان سمیت پختونخواہ و سندھ میں جنگی جرائم میں ملوث ہے۔ اب ریاستی ادارے بوکلاہٹ کا شکار ہوکر بلوچ خواتین کو ٹارگٹ کر رہے ہیں جس کی ایک اور مثال ماہ رنگ بلوچ، گلزادی بلوچ اور بیبو بلوچ کی ناحق تین ایم پی او کے تحت قید ہے جسے ریاستی عدالتیں طول دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں. یہ سارے حربے بلوچ خواتین کو خاموش کرنے کے لیے آزمائے جا رہے ہیں تاکہ بلوچستان میں ہونے والے ریاستی ننگی جاریت کا پردہ فاش نہ ہو جائے مگر ان کو کون سمجھائے کہ بلوچ کو بچپن سے مائیں مزاحمت کی لوریاں سناتی ہیں۔
پاکستانی میڈیا اور سول سوسائٹی سے امید رکھنا کہ وہ بلوچ کے لیے آواز بلند کریں گی، میرے خیال میں اس سے بڑی بیوقوفی ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ ان میڈیا و باقی اداروں کو ریاست نے یہ ٹاسک دیا ہے کہ بلوچستان کے ہر معاملے کو متنازعہ کر کے پیش کریں تاکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکا جا سکے مگر بحیثیت قوم اس سخت وقت میں ہماری ذمہ داریاں دوگنی ہو جاتی ہیں کیونکہ یہ بچی جو آج قید میں بند ہے وہ بلوچستان کی بچی ہے جو ہماری انتظار میں پتہ نہیں کتنی اذیتیں برداشت کر رہی ہے، اس فیملی کی بلوچ جدوجہد میں پہلے بھی قربانیاں رہی ہیں انہوں نے جبری گمشدگیوں کا کرب بہت قریب سے دیکھا ہے اپنوں کی مسخ شدہ لاشیں انہوں نے اٹھائی ہیں جدوجہد کے اس درخت کو انہوں نے اپنے خون سے سینچا ہے۔
چلیں یہ عہد کریں کہ ہم اپنی بچی ماہ جبین کو اس سخت اور کٹھن وقت میں تنہا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ ماہ جبین کی پیاری آنکھیں ہماری آواز کی منتظر ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔