یہ طبعی موت نہیں، قتل ہے – فیض بلوچ

17

یہ طبعی موت نہیں، قتل ہے۔۔

تحریر: فیض بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے ضلع صحبت پور سے تعلق رکھنے والا ہنستا کھیلتا ایک اور نوجوان ہیپاٹائٹس کے ہاتھوں موت کی آغوش میں چلا گیا مگر کیا یہ واقعی قدرتی موت تھی؟ نہیں۔۔۔ یہ ایک اندھا، بے رحم قتل ہے۔ ایسا قتل جس کے قاتل نہ چھپے ہوئے ہیں اور نہ ہی نامعلوم۔ وہ ہمارے معاشرے کے وہی کردار ہیں جو اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں ہمارے عوامی نمائندے، ہمارے ضلعی افسران، صحت کے محکمے کے ذمہ دار اور وہ سب جو اس بدنصیبی کو دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔۔۔ ہم سب ذمے دار ہیں۔

نصیرآباد ریجن میں ہیپاٹائٹس ایک وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ روزانہ کئی افراد اس موذی مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ مگر نہ کہیں ویکسین کی سہولت ہے، نہ ہی تشخیص کے جدید طریقے موجود ہیں۔ علاج تو دور کی بات ہے، لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ وہ اس مہلک بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر کیوں۔۔۔؟ جواب واضح ہے نااہلی، کرپشن اور نمائندوں کی مجرمانہ بے حسی۔

وزارتِ صحت کے اربوں کے بجٹ کہاں گئے؟

صحت مراکز خالی کیوں پڑے ہیں۔۔۔؟ موبائل ہیلتھ یونٹس کہاں ہیں…؟ دیہی علاقوں میں ویکسینیشن مہم کیوں نہیں چلائی گئی…؟ جواب میں فقط خاموشی ہے، اور یہ خاموشی، کسی اور چیز کی نہیں بلکہ ضمیر کی موت کی علامت ہے۔

ہمارے مجرم نمائندے اور ان کے مقامی سہولت کار جو ووٹ مانگنے کے لیے گاؤں گاؤں، دروازے دروازے جا پہنچتے ہیں، وہ اب کیوں غائب ہیں؟

نصیر آباد ریجن کا ایک ٹینیور میں بجٹ 50 ارب روپے سے زیادہ ہے یہ بجٹ آدھے کلومیٹر سڑکیں جن کو ہم سیاسی رشوت کہتے ہیں چھوٹے چھوٹے زمینداروں اور وڈیروں کی نظر ہو جاتا ہے ان کا ضمیر کیوں نہیں جاگتا۔ جب ان کے اپنے حلقے کے نوجوان قبر میں جا اترتے ہیں؟ یہ مقامی وڈیرے لوگ اپنے مطالبات اور عطا کرنے والے ایم پی ایز اپنی ترجیحات کیوں نہیں بدلتے۔۔۔؟ آدھا کلومیٹر سڑکوں کے بجائے اگر ہیپاٹائٹس کے بڑے اسپتال قائم کیئے جائیں جہاں مفت نہ سہی پیسوں پر ہی نزدیک جدید تشخیصی مراکز اور جدید علاج میسر ہو تو کیا انسانی جانوں کی اتنی ضیاع ہوگی جیسا کہ اب ہے۔۔۔۔؟ ہماری ترجیحات کیا ہیں۔۔۔۔؟ ان پر بیٹھ کر سوچیں اور ماتم کریں کہ ہم اتنے بے حس کیوں اور کیسے ہوسکتے ہیں۔۔۔۔؟کیا ان کی ذمہ داری صرف انتخابات تک محدود ہے؟ ان کی بے حسی، ان کی خاموشی، ان کی مجرمانہ لاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ آج ایک اور جوان دفن ہو چکا ہے۔ یہ ایک فرد کا نقصان نہیں بلکہ پورے معاشرے کا سانحہ ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم صرف رونے اور دکھ کا اظہار کرنے کے بجائے مطالبہ کریں:

حکومت بلوچستان فوری طور پر نصیرآباد میں ایمرجنسی صحت مہم کا آغاز کرے۔

تمام اضلاع میں مفت ہیپاٹائٹس اسکریننگ اور ویکسینیشن کی سہولت فراہم کی جائے۔

مجرمانہ غفلت کے مرتکب محکمہ صحت کے اہلکاروں، اور فنڈز کی خورد برد کرنے والے ایم پی ایز اور ایم این ایز کے خلاف مقدمات قائم کیے جائیں۔

عوامی نمائندوں کو اسمبلی میں ان کے حلقوں کی صحت کے بارے میں جواب دہ بنایا جائے۔

آخری بات ، اگر آج ہم نے آواز بلند نہ کی تو کل اور کتنے نوجوان اس وبا کا شکار ہوں گے؟ یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں، جھنجھوڑنے کا ہے۔ یاد رکھیں یہ طبعی موت نہیں، قتل ہے۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔