یہ مضمون معرف بلوچ کارکن، بلوچ یکجہتی کمیٹی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اپنی قید کے دوران کوئٹہ کے ہدہ جیل سے عالمی جریدہ ٹائم میگزین کے لیے تحریر کیا ہے۔
ٹائم میگزین کی جانب سے 10 جون کو شائع کردہ مضمون میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے لکھا ہے مجھے دو ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے کہ میں کوئٹہ کی ہدہ جیل میں قید ہوں یہ وہی جگہ ہے جہاں میرے والد کو قریب دو دہائیاں پہلے قید کیا گیا تھا صرف اس جرم میں کہ وہ بلوچستان کے عوام کے حقوق کی بات کرتے تھے۔
ماہ رنگ بلوچ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ گرفتاری کے بعد ریاستی سیکیورٹی اداروں نے مجھے توڑنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا مجھے ایک معاہدہ پیش کیا گیا کہ اگر میں خاموشی اختیار کر لوں، سیاسی سرگرمیوں سے باز آ جاؤں تو مجھے رہا کر دیا جائے گا میں نے انکار کر دیا آج تک ریاست میرے خلاف کسی قسم کی تشدد یا جرم میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکی ان کے پاس واحد ثبوت وہ پریس کانفرنس ہے جو میں نے اپنی گرفتاری سے چند روز قبل کی تھی۔
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق میں نے یہ پریس کانفرنس اس وقت کی جب مسلح افراد نے ایک ٹرین کو اغوا کرلیا اور تین سو کے قریب مسافروں کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا یہ واقعہ بلوچستان میں پیش آیا اور اس کی ذمہ داری ایک مسلح تنظیم نے قبول کی۔
ماہ رنگ بلوچ نے مزید واضح کرتے ہوئے لکھا ہے میری پریس کانفرنس میں گفتگو کا مقصد ان حملہ آوروں کی حمایت نہیں تھا ہماری تحریک بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ہمیشہ تشدد کی مذمت کی ہے میرا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ ریاست کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے والوں اور پرامن احتجاج کرنے والوں میں فرق ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اہم فرق ہے جسے ریاست جان بوجھ کر مٹانے کی کوشش کرتی ہے پاکستان میں جو بھی بلوچ عوام کے حقوق کی بات کرتا ہے اسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے، ایسے لوگوں کو گرفتار کر کے جبری لاپتہ کر دیا جاتا ہے اگر وہ دوبارہ نظر آئیں تو اکثر ان کی لاشیں ہی سامنے آتی ہیں جیسے حالیہ ٹرین حملے کے بعد کوئٹہ کے سول ہسپتال میں 24 سے زائد لاشیں لائی گئیں ان میں سے 13 کو بغیر شناخت کے راتوں رات ایک قبرستان میں دفنایا گیا۔
ماہ رنگ بلوچ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملے میں ملوث مسلح تنظیم نے اپنے 12 مارے جانے والے ارکان کی شناخت بمعہ تصاویر جاری کی تھی تو اسکے علاوہ جو باقی لاشیں تھی انکی شناخت کیوں نہیں ہوئی؟ ہمیں شبہ تھا کہ ان میں وہ افراد شامل تھے جو پہلے ہی جبری طور پر لاپتہ کیے جا چکے تھے۔
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ہم نے فقط ان لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کا مطالبہ کیا کیونکہ بلوچستان میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری طور لاپتہ افراد کے لواحقین کو خدشہ تھا کہ ان کے لاپتہ پیارے انہی میں شامل ہو سکتے ہیں، اس بنیاد پر مجھے قید کیا گیا کہ میں نے پرامن احتجاج اور مسلح مزاحمت میں فرق کرنے کی جرات کی۔
ماہ رنگ کے مطابق انکا کام پہلے ہی دنیا کی توجہ حاصل کر چکا تھا مئی 2024 میں میں ناروے گئی، جہاں PEN Norway اور ورلڈ ایکسپریشن فورم نے مجھے مدعو کیا تھا وہاں مجھے پاکستانی سفارت خانے سے وابستہ افراد نے ہراساں کرنے کی کوشش کی، لیکن نارویجن سیکیورٹی ادارے نے بروقت مداخلت کی وطن واپسی پر مجھ پر غداری کے مقدمات قائم کر دیے گئے جیسے میں ناروے نہیں بلکہ داعش کے کیمپ سے واپس آئی ہوں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ مزید لکھتے ہیں اکتوبر میں مجھے جب ٹائم میگزین کی “Time100 Next” فہرست میں شامل کیا گیا تو ریاست کی ناراضگی میں مزید شدت آ گئی مجھے مغربی ایجنٹ، دوسری ملالہ اور بیرونی طاقتوں کا آلہ کار کہا جانے لگا میری نگرانی بڑھا دی گئی اور مجھے فورتھ شیڈول کی فہرست میں شامل کر دیا گیا جس میں شامل افراد پر سفری پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔
وہ کہتی ہے میں آج یہ سب کچھ سیکھ رہی ہوں کہ پرامن جدوجہد کی کیا قیمت ہوتی ہے بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جسے معلوماتی طور پر دنیا سے کاٹ دیا گیا ہے یہاں جو صحافی ظلم و ستم پر آواز اٹھاتے ہیں انہیں قتل، اغوا یا جلا وطن کر دیا جاتا ہے، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے مطابق 2000 سے اب تک چالیس سے زائد صحافی قتل کیے جا چکے ہیں غیر ملکی میڈیا کو بلوچستان تک رسائی حاصل نہیں۔
ایسے ماحول میں ایک عورت کا پرامن تحریک کی قیادت کرنا ریاست کو قبول نہیں جب مجھے بی بی سی کی سو خواتین کی فہرست میں شامل کیا گیا اور امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تو ریاستی سختی میں اضافہ ہو گیا، میری زندگی کو لاحق خطرات بڑھا دیے گئے، ملاقات کے دوران میری بہن نے مجھے بتایا کہ داعش خراسان نے سو صفحات پر مشتمل ایک کتابچہ اردو زبان میں جاری کیا ہے جس میں مجھے مغربی ایجنٹ قرار دیا گیا ہے صرف اس بنیاد پر کہ مجھے ٹائم میگزین نے اعزاز دیا اور میں ناروے گئی۔
ماہ رنگ بلوچ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے میرے ساتھ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنما بھی قید میں ہیں جن میں صبغت اللہ شاہ جی، بیبرگ زہری (جو جسمانی طور پر معذور ہیں)، گلزادی اور بیبو شامل ہیں، میں انھیں کہتی ہوں کہ ہم وہ پہلے لوگ نہیں جو امن، انصاف اور حقوق کی بات پر قید کیے گئے۔ نیلسن منڈیلا سے لے کر نرگس محمدی تک ہم ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ہم ان کی جرات اور حوصلے سے طاقت لیتے ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ کہتی ہے ہماری تحریک پرامن ہے ہم جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، لوگوں زبردستی نقل مکانی اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، ہم ریکوڈک اور سیندک جیسے قیمتی پروجیکٹس کے اصل وارث ہیں مگر ان کے منافع سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا گوادر جو سی پیک کا گیٹ وے ہے اس کا کنٹرول بھی ہم سے چھینا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کی ستر فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
اپنے مضمون میں ماہ رنگ بلوچ مزید لکھتے ہیں ریاست ہمیں دہشت گرد کہتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم پرامن ہیں ریاست خود طاقت اور اسلحہ سے لیس ہے جو ہماری آواز دبانے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی ہے جو کچھ بلوچستان کے ساتھ ہو رہا تھا اب وہی روش پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی دیکھی جارہی ہے عمران خان اور ان کی پارٹی پر آج وہی الزامات لگ رہے ہیں وہ بھی جیل میں ہیں کیا وہ بھی دہشت گرد ہیں؟
انہوں نے سوال کیا اگر ریاستی ادارے واقعی اتنے اہل ہیں جتنا وہ خود کو ظاہر کرتے ہیں تو وہ آج تک میرے خلاف ایک بھی ٹھوس ثبوت کیوں نہیں لا سکے؟ وہ ایک منصفانہ اور شفاف مقدمہ کیوں نہیں چلاتے؟ اس لیے کہ یہ قانون کا نہیں بلکہ خوف کا معاملہ ہے انہیں سچ سے خوف ہے۔
ماہ رنگ بلوچ اپنے یاداشت کے حوالے لکھتے ہیں یہ جیل صرف ایک عمارت نہیں بلکہ میرے والد کی یادوں کا بوجھ ہے میں نے اپنا بچپن کھلونوں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے والد کے پوسٹرز کے ساتھ گزارا، جو اغوا ہو کر لاپتہ کر دیے گئے تھے جب میں بالغ ہوئی مجھے ان کی لاش ملی جو گولیوں سے چھلنی اور تشدد زدہ تھی یہ صرف میری کہانی نہیں ہر بلوچ بچے کی کہانی ہے۔
ہم وہ نسل ہیں جو ریاستی جبر کے سائے میں پروان چڑھی ہم نے عہد کیا ہے کہ ہمارے بعد کوئی بچہ ایسا بچپن نہ گزارے ہم جانتے ہیں کہ ریاست طاقتور ہے وہ میڈیا، عدلیہ، پارلیمان اور قانون کے تمام ادارے کنٹرول کرتی ہے وہ پراکسی گروپس اور مسلح ملیشیا چلاتی ہے، ہماری قید دراصل بیانیے کی جنگ کا حصہ ہے ہم پرامن مزاحمت کی علامت ہیں۔
اپنے تحریر کے اختتام میں وہ لکھتی ہے۔
انصاف کے لیے آواز اٹھانا جرم نہیں
ریاستی ظلم کے خلاف بولنا غداری نہیں
حقوق کا مطالبہ کرنا دہشت گردی نہیں
یہ انسانیت ہے
اور ہمیں یقین ہے کہ ایک دن یہ جدوجہد ضرور کامیاب ہوگی۔