گلزمین بلوچستان میری سوچ کے دریچوں میں
تحریر: زیڈ ایس بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان ایک وسیع، زرخیز اور براعظم ایشیا میں سب سے زیادہ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ یہاں کی ثقافت، رسم و رواج، قبائلی علاقوں کی تہذیب، رنگ و نسل، میوزک، ادب، آرٹ، ہنر، تجربہ، خوشگوار موسموں میں تبدیلی، سیاہ و سفید پہاڑوں، چشموں، دریاؤں اور ایک لمبی ساحل سمندر کی پٹی کے ساتھ اس کرہ ارض پر صدیوں سے موجود ہے۔ جس کی سرحدیں کئی ممالک سے منسلک ہیں اور ان پہاڑوں سے نکلنے والے ذخائر جو ایک پورے ملک کو توانائی، معاشی ترقی اور کمک دے رہے ہیں بلکہ عالمی طاقتیں بھی اس دھرتی کے وسائل سے زبردستی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
یہاں کے لوگوں میں زندہ دلی، مہمان نوازی، بہادری، اپنی زمین اور ننگ و ناموس پر جنگوں کی ایک مسلسل اور خوبصورت تاریخ موجود ہے۔ زبان، ادب اور ثقافت کو ترجیح دی جاتی ہے اور اسے پروموٹ کرنا ہر بلوچ کا فرض بن چکا ہے تاکہ یہ قوم ریاست کے کسی دوسرے صوبے میں ہی کیوں نہ ہو، چاہے وہ دنیا کے آخری کونے پر بیٹھا ہو، اس کی سوچ، نظریہ اور ثقافت ایک ہے جو آج بھی بلوچستان کی عوام اور نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
بلوچستان ایک جنت نظیر وادی، اللہ کی سب سے بڑی نعمت اور دنیا کی ہر دولت سے مالا مال صوبہ ہے مگر بلوچستان میں عوام کے لیے ناانصافیوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں کی ایک لمبی فہرست اور تلخ حقائق کئی دہائیوں سے موجود ہیں، جو کہ نواب نوروز خان سے شروع ہو کر نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت اور موجودہ صورتحال سب کے سامنے واضح ہے۔
بلوچستان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ یہاں دنیا کی ہر نعمت ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کی عوام اللہ کی دی گئی نعمتوں سے محروم و مظلوم ہو چکے ہیں۔ یہاں کے ہر وسائل کسی نہ کسی بلوچ کی زمین سے نکل رہا ہے جو کہ اس ریاست کے ہر کونے تک پہنچ رہا ہے۔ دوسرے صوبے اور قوموں کے لیے نفع بخش ہے مگر یہاں کی عوام کے لیے چراغ تلے اندھیرا کی حیثیت رکھتا ہے۔ بلوچستان دنیا میں سب سے زیادہ محرومیوں، ناانصافیوں، بے جا گمشدگیوں، حق تلفی اور اس قوم کی ننگ و ناموس کو تار تار کرنے والا صوبہ بن چکا ہے۔ سادہ الفاظ میں ان کی زمین ان پر تنگ ہو چکی ہے۔ یہاں اور تو اور کسی کے بھی نام کے ساتھ بلوچ لکھا ہو تو اسے ریاست، اس کے صوبے اور گھر میں ہی شک کی نگاہوں سے دیکھ کر اس کی تمام تر صلاحیتوں پر ایک منفی لیبل لگا کر انہیں ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ یہاں کے وسائل کو بآسانی لوٹ سکیں اور ان سے زندگی کے تمام تر سہولیات کا فقدان پیدا کر کے انہیں احساس کمتری کا نشانہ بنا کر اس قوم کو اندھیرے میں دھکیل سکیں۔
پھر شاعر نے یوں کہا:
منتظر میرے زوال کے ہیں
میرے اپنے بھی کمال کے ہیں
یہ وہ بدقسمت صوبہ ہے جہاں اس کی عوام کے لیے کچھ بھی نہیں، بس غربت، افلاس، محرومی، ناانصافی، بے روزگاری اور یہاں تک کہ سچ بات بلند کرنا اور سچ بولنا ہی ایک جرم بن چکا ہے۔ یہاں سرکار خود ناانصافیوں میں مصروف ہے تو ایک عام انسان کو کیا حق رسائی ہو سکتی ہے؟ پورے بلوچستان میں صرف گنتی کے ہسپتال، کالج، یونیورسٹیاں، سائنس اور ٹیکنالوجی تک رسائی اور جدید سائنسی تحقیقات و معلومات سے قاصر ہے۔ حتیٰ کہ بلوچ قوم تعلیم دوستی کا ثبوت لاکھوں روپے کی کتابیں خرید کر اور پوری دنیا میں ادھر ادھر تعلیم حاصل کر کے دے رہی ہے جو کہ بلوچستان کی پستی مگر غربت میں بھی ان کی تعلیم دوستی کا ثبوت ہے۔ اور ہاں یہاں جتنے بھی پروجیکٹ ہیں ان کا بلوچ عوام کو شاید ہی کچھ فائدہ ہو! کرپشن کی بڑی وجہ بھی وہی ہیں جو اپنے من پسند لوگ مسلط کروا کر اس میں اپنا حصہ لیتے ہیں۔ جمہوریت اور ووٹ کی کوئی طاقت نہیں۔ جہاں چھڑی گھم جائے وہاں نااہل بندہ بھی حکومت کرنے لگ جاتا ہے جو نہ تو بلوچستان اور نہ ہی بلوچ عوام کی صحیح طریقے سے ترجمانی کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں بلکہ ان کی آواز ہی دبا دی جاتی ہے۔ جو بھی اپنے حق میں بولے اسے تو اٹھا لیا جاتا ہے اور کئی سالوں بعد اس کی مسخ شدہ لاش کسی دریا، نالے یا پہاڑ کے دامن میں مل جاتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں زندہ لوگوں کے برابر قبریں بنی ہوئی ہیں۔ یہاں عید، خوشی، تہوار کچھ بھی دل پر اثر نہیں کر رہا کیونکہ کسی گھر میں اگر کسی کے بیٹے کی لاش، اور پہچاننے کے لیے ہڈیاں پہنچ جائیں تو وہاں زندگی، انسانیت اور زندہ رہنے کا حق باقی نہیں رہ جاتا۔
سیاست، حکومت، معیشت، تعلیم و ترقی، ادب، فن، مہارت، تجربہ، سائنس و ٹیکنالوجی تک کسی بھی عام و خاص کی رسائی نہیں ہے اور وسائل نہیں۔ گورنمنٹ، انتظامیہ اور ملازمین سو فیصد تو دور، دس فیصد بھی اپنی ذمہ داریاں نبھا نہیں رہے ہیں۔ جو بک جائے وہ برا ہو کر بھی اچھے اور باعزت لوگوں کا مالک بن جاتا ہے۔
کسی نے کیا ہی خوب کہا:
سر محفل جو بولوں تو زمانے کو کھٹکتا ہوں
رہوں میں چپ تو اندر کی بغاوت مار دیتی ہے
موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے۔ بلوچ اب مجبور ہو کر مزاحمت کا راستہ اختیار کر چکا ہے۔ یہاں کا ہر شخص اب اس ریاست کے لیے سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ یہ قوم اب کھڑی ہو گئی ہے، ایک ہی صف میں، ایک ہی سوچ، نظریہ، مقصد اور منزل رکھتی ہے اور گامزن ہے۔ اب لوگ بھوک سے، کسی کے جبر سے مرنے کے بجائے عزت کی موت کو بے عزتی کی زندگی پر ترجیح دے رہے ہیں کیونکہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جبری گمشدگیوں کا ہے جس میں ہزاروں بلوچ کئی دہائیوں سے لاپتہ ہیں، ان کا کوئی پتہ نہیں۔ جو بھی ان کا پتہ کرنے کے لیے نکلتا ہے وہ خود اٹھا لیا جاتا ہے اور لاپتہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کی جگہ اس کے وارث پھر کھڑے ہو جاتے ہیں جن پر کوئی نہ کوئی لیبل دے کر بے وجہ مار دیا جاتا ہے۔ بلوچ قوم ان کے وارث ہیں، وہ ان شہیدوں کو نہیں بھول رہے، اس تحریک کو مزید تقویت دے رہے ہیں مگر منزل زیادہ دور نہیں، پر کٹھن ضرور ہے۔
کیونکہ یہاں حق کی صدا بلند کرنا، اپنے حق کے لیے بات کرنا بھی ایک جرم بن چکا ہے۔ لوگ زندگی جینے کا ہنر اور فن بھول چکے ہیں۔یہ قوم مزاحمت کر رہی ہے بلکہ آج ہر بلوچ مزاحمتی بن چکا ہے کیونکہ اس کے لیے کوئی اور راستہ ہی نہیں بچا ہے کہ کہیں پر اپیل کر سکے۔ وہ مایوس اور ناامید ہو چکا ہے مگر یہ بلوچ بھی ڈرنے والا، جھکنے والا، بھاگنے والا نہیں کیونکہ یہ ان کی تاریخ انہیں بتاتی ہے، ان کے بڑے انہیں بتا چکے ہیں کہ اپنے حق کے لیے لڑ کر مر جانا ہی زندگی ہے۔ غلامی سے نجات میں زندگی ہے۔
آج کل مسنگ پرسنز میں بہت اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، عام لوگ مر رہے ہیں، ان میں سب لوگ شامل حال ہیں۔ بلوچ قوم اپنے پیاروں کے وارث ہیں اس لیے ان کی زندگیاں گھروں میں نہیں بلکہ سڑکوں پر، روڈوں اور بازاروں میں سردی اور گرمی شدت کے باوجود گزر رہی ہیں۔ بچے، بوڑھی عورتیں اور بزرگ لوگ انصاف کی بھیک اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے مانگ رہے ہیں مگر انہیں یہ حق بھی نہیں کہ وہ عدالت سے رجوع کریں جو انہیں انصاف فراہم کرے۔ انسانیت بالکل ختم ہو چکی ہے۔ روز چھوٹے اور بڑے کی لاشیں مل رہی ہیں، کوئی آواز سننے والا نہیں۔
مزاحمت کی اس تحریک میں کسی نہ کسی کو ہراساں، قید و بند اور لیبل یا پابندیاں لگا دی جاتی ہیں تاکہ یہ مزاحمت اور تحریک دم توڑ جائے۔ حال ہی میں بلوچ قوم کی ترجمانی کرنے والی لیڈر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کی ٹیم بے وجہ پچھلے تین ماہ سے قید میں ہے۔ اب اس بار تو بلوچستان اور بلوچ قوم کی ننگ و ناموس پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں۔ عورتوں کے دوپٹے اتار رہے ہیں اور انہیں سرعام روڈوں پر گھسیٹ کر بلوچ قوم کی عزت پر حملہ کر رہے ہیں مگر اب کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے، کوئی راستہ نہیں، کوئی اختیار نہیں، کوئی داد رسی والا نہیں، اب کوئی اور آپشن ہی نہیں بچا۔
مگر بلوچ قوم پہلے سے زیادہ مضبوط ہو رہی ہے۔ ہر کوئی ان سے ناامید ہو کر اپنی زندگی، ننگ و ناموس کی تحفظ کے لیے اور اپنے حق کی جنگ لڑ رہا ہے۔
بد امنی کی فضا ہے مگر اس کی وجہ کون لوگ ہیں؟ سب جانتے ہیں۔ جس نے بلوچستان اور بلوچ قوم کی بات کی اس پر لیبل لگتے رہے اور ختم کیے گئے، مار دیے گئے اور ہٹا دیے گئے۔ یہ تو تاریخ بتاتی ہے مگر اب بھی وہ دن دہرائے جا رہے ہیں۔ لیکن ایک ہی مقصد اور منزل پوری قوم ایک ہی صف میں کھڑی ہوگئی ہے جو بڑوں کا خواب تھا اسے بلوچ قوم پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اب ہر بلوچ مزاحمت کا راستہ اختیار کر رہا ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کو خفا کر کے دشمن سے ٹکر لینے کے لیے ان کے سامنے چھاتی کھول کر کھڑا ہے تاکہ وہ عزت کی گولی کھا لے جو اس غلامی سے بہتر ہے۔
بلوچستان کی خوبصورت تاریخ آج کے نوجوانوں کے لیے ایک مثال ہے، ایک راستہ ہے جو آج بھی ہے، ایک امید ہے جو آج بھی ہے، ایک حسرت ہے جو پوری ہو سکتی ہے، ایک تحریک ہے جو اب بڑھ رہی ہے اور مزید بڑھ سکتی ہے۔
ایک مزاحمت ہی ہے جو امید کی کرن بن رہی ہے۔ کمزور اپنی لڑائی اب خود لڑ رہے ہیں۔ یہ کمزور اگر کوئی اور قوم ہوتی تو شاید وہ غلامی میں جھک جاتی مگر بلوچ قوم اپنی تاریخ کو پیچھے نہیں بلکہ آگے رکھ کر بامقصد زندگی گزارنے کے لیے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔
انقلابی لیڈر چے گویرا کو جب قتل کر رہے تھے تو تب چے نے کہا تھا: “تم گولی چلاؤ، تم ایک بزدل ہو، تم ایک شخص کو تو مار سکتے ہو مگر میری سوچ ختم نہیں ہو سکتی۔”