گریٹ پاور پالیٹکس، بین الاقوامی قوانین اور بلوچ قومی تحریک
تحریر: ہارون بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
امریکہ کی تاریخ میں کئی صدور آئے اور کئی چلے گئے۔ ہر صدر کے دور میں امریکہ نے دنیا بھر میں مختلف جنگوں میں حصہ لیا، کہیں پر قبضہ کیا تو کہیں پر حکومت گرا کر انہیں اپنے زیر اثر لانے میں کامیاب ہوا۔ لیکن پہلے صدور اور ڈونلڈ ٹرمپ میں فرق یہ ہے کہ جو باتیں پچھلے صدور اور نمائندے پردے میں رکھ کر یا گھما پھرا کر کرتے تھے، ٹرمپ انہیں کھلے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ ٹرمپ نے زیلنسکی کو دنیا کے سامنے بتا دیا کہ روس تم سے زیادہ طاقت ور ہے، اس لیے تمہارے پاس کوئی کارڈز نہیں ہیں۔ اگر ہم نے تمہارا ساتھ چھوڑ دیا، یعنی بطور ایک بڑی طاقت اگر تمہیں تنہا روس کے حوالے کیا تو ہفتوں میں روس کیف یعنی یوکرائن کی کیپیٹل پر قبضہ کر جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ تم ایک چھوٹی طاقت ہو، جو یورپ اور امریکہ کی مدد سے روس کے سامنے کھڑے ہو، اس لیے ہم جو کہتے ہیں یہی کہا مان جاؤ اور ڈیل کی طرف آؤ۔ گو کہ اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں کہ جس طرح یوکرائن نے روس جیسی بڑی طاقت کا مقابلہ کیا اور جس طرح روس کے لاکھوں فوجیوں کو قتل کر کے بھی اسے صرف ان علاقوں پر قبضے تک محدود کر دیا جو پہلے سے ہی روس کی نگرانی میں یوکرینی حکومت کے خلاف مسلح جنگ لڑ رہے تھے اور ان بیشتر علاقوں میں روس نواز مسلح گروہوں کا قبضہ تھا، جب روس نے یوکرائن کے خلاف اپنے اسپیشل آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ لیکن گزشتہ تین سالوں میں یوکرائن نے بہترین مزاحمت کے ذریعے روس کی پیش قدمی کو روک رکھا ہے۔ لیکن بہترین اور منظم مزاحمت کے باوجود بھی ٹرمپ کی باتیں اپنی جگہ حقیقت ہیں کہ اگر یورپ اور امریکہ یوکرائن کا ساتھ چھوڑ دیں، روس پر پابندیاں ہٹا دیں، یوکرائن کو وسائل اور اسلحہ تک رسائی نہ دے، یوکرائن کو معاشی حوالے سے سپورٹ نہ کرے اور روس کو ایٹمی ہتھیاروں جیسے خطرناک اسلحہ کے استعمال سے نہ روکے تو یقیناً یوکرائن کی مزاحمت بھی بیکار ہو جائے گی۔
گریٹ پاور پالیٹکس آج جس طرح دنیا کے سامنے ایک حقیقت کی طرح عیاں ہے، شاید تاریخ میں اس سے پہلے کبھی بھی نہیں رہا ہوگا۔ آج امریکہ اور بالخصوص صدر ٹرمپ اور امریکی وائس پریذیڈنٹ جے ڈی وینس عالمی سیاست کے پردے کے پیچھے اور دنیا کی انٹلیکچوئل ڈیبیٹ کے اندر محدود حقیقت تھے، آج اس حقیقت سے بچہ بچہ آگاہ ہے۔ ٹرمپ نے جس طرح گریٹ پاور پالیٹکس کی حقیقت حالیہ دنوں روس اور یوکرائن کے جنگ یا تنازع میں دکھائی ہے، یہی صورت حال مڈل ایسٹ میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ٹرمپ نے غزہ پر اسرائیلی طاقت کے استعمال کی مذمت کرنے کے بجائے اور بدترین انسانی و عالمی عدالت کے مطابق نسل کشی پر اسرائیل کو کچھ کہنے کے بجائے حماس کو دھمکی دے ڈالی کہ اگر یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا تو غزہ میں کچھ نہیں بچے گا۔ امریکہ کی طاقت اور بدترین تاریخ سے آگاہ حماس نے ابتدائی مرحلے میں اکثر و بیشتر یرغمالیوں کو رہا کر دیا، جبکہ انہوں نے غزہ کے معاملے میں نیتن یاہو کو مکمل چھوٹ دے دی کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں، حتیٰ کہ انہوں نے غزہ کو اپنے کنٹرول میں لینے کی بات بھی کی۔
ٹرمپ گریٹ پاور پالیٹکس کی حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور امریکی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر تنازع میں خود کو اسے حل کرنے والا ثابت کرتا ہے اور اس کا کریڈٹ لیتا ہے، حتیٰ کہ وہ اپنے قریبی دوست ممالک بھی نہیں چھوڑتا۔ یورپ کے بیشتر ممالک امریکہ کی سیکورٹی گرنٹی کے ساتھ ہمیشہ نیٹو میں اپنی روایتی موجودگی دکھاتے ہیں، البتہ اس کی معاشی بوجھ میں کچھ ادا نہیں کرتے۔ ٹرمپ نے سب کو دھمکی دی کہ اپنے بجٹ کا پانچ فیصد حصہ نیٹو کو دیں تب جا کر ہی آپ کی سیکورٹی یقینی ہو سکتی ہے، اس طرح ممکن نہیں ہے۔ اور سب یورپی ممالک جو پہلے ہی روس کے خطرے سے دوچار ہیں اور روسی حملے کے سائے میں جی رہے ہیں، انہوں نے جلدی سے طاقت ور امریکہ کی بات مان لی اور حالیہ سمٹ میں فیصلہ ہوا کہ تمام ممالک 2035 تک اپنی بجٹ کا پانچ فیصد حصہ نیٹو کو دے دیں گے۔ یہی صورت اسرائیل کے معاملے میں بھی حالیہ دنوں دیکھنے کو ملی۔ عام طور پر اسرائیل کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کرتا، زمانے سے ایک بات سنتے آ رہے ہیں کہ اسرائیل کو کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا، لیکن طاقت ور ترین طاقت ہر چیز کو روک سکتی ہے۔ جب اسرائیل نے حملہ کیا تو امریکہ کو لگا کہ اب وقت آ گیا ہے شاید، اس لیے حملے کے پہلے دنوں انہوں نے اسرائیل کی بھرپور مدد کی۔ حملہ اسرائیل کر رہا تھا اور دھمکی ٹرمپ دے رہا تھا، حتیٰ کہ تہران کو خالی کرنے کی بھی دھمکی دے ڈالی، مگر جب ایران نے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا اور حملے کے پہلے جھٹکوں سے خود کو سنبھال کر اسرائیل پر مسلسل بمباریوں کا آغاز کیا، اور اسرائیل کے شہری علاقوں میں کئی میزائل حملے کیے اور انہوں نے جس طرح باقاعدہ ان حملوں کو جاری رکھا، امریکہ کو ایران کی طاقت کا اندازہ ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ جنگ اگر جاری رہی تو یہ دنوں میں نہیں جائے گی۔ ایران کی طاقت ور ردعمل کو دیکھ کر امریکہ اور صدر ٹرمپ نے اپنے ارادے بدل دیے اور صرف ایران کے ایٹمی ہتھیار بنانے والے یورینیم افزودگی سینٹرز کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا، لیکن پورے دورانیے میں کسی بھی جگہ عالمی قوانین کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ اسرائیل نے ایران پر حملہ کرتے ہوئے اس بات کا جائزہ نہیں لیا کہ یونائیٹڈ نیشنز کے چارٹر کی شقیں کیا کہتی ہیں، کیا یو این کے ایک ممبر ملک پر کوئی دوسری ریاست حملہ کر سکتی ہے؟ بالکل نہیں۔ حتیٰ کہ یو این نے اسرائیلی اور امریکی حملوں کی مذمت تک نہیں کی جبکہ نیٹو کے سربراہ اور چند دیگر یورپی ممالک نے ایران پر حملے کی صرف اس بنیاد پر حمایت کر دی کہ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔
اسی طرح اگر دیکھا جائے تو ایران نے بھی کسی عالمی قانون کا احترام کیے بغیر قطر میں موجود امریکی اڈوں پر حملہ کر دیا۔ یعنی حالیہ جنگوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ گریٹ پاور پالیٹکس کی اس حقیقت کو واضح طور پر دکھاتے ہیں کہ حالیہ انسانی اور جنگی تاریخ میں صرف آپ کی طاقت کا جائزہ لیا جائے گا کہ آپ کتنے طاقت ور ہیں۔ طالبان اس کی ایک بہترین مثال ہے کہ دنیا میں کسی بھی ممالک کی جانب سے اب تک طالبان حکومت کو قبول نہیں کیا گیا ہے لیکن دنیا بھر میں طالبان ہی افغانستان کی نمائندگی کر رہے ہیں، اور بقول روسی صدر پوٹن کہ اگر افغانستان پر طالبان ہی قبضہ ہے تو وہاں کے نمائندے بھی وہی ہیں اور ہمیں ان کے ساتھ تعلقات بنانے چاہیے۔
گریٹ پاور پالیٹکس کیا ہے؟
گریٹ پاور پالیٹکس انٹرنیشنل ریلیشنز کی ریلیزم تھیوری سے جڑی اس حقیقت کا ادراک ہے کہ ریاستیں اخلاقیات، عالمی قوانین، انصاف کے بجائے طاقت، اپنے مفادات اور اپنی سلامتی کے لیے ہی جستجو کرتی ہیں۔ ان کے یہاں عالمی قوانین کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے یعنی جو جتنا زیادہ طاقت ور ہے وہی عالمی سیاست کے فیصلے کرتا ہے اور طاقت ور ریاستیں دنیا میں انصاف لانے اور عالمی قوانین کا احترام کرانے کے بجائے اپنے مفادات دیکھتی ہیں اور اسی کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہیں جبکہ جو کمزور ریاستیں ہیں ان کی کوئی سالمیت اور حقوق نہیں ہیں، اگر ہیں بھی تو یہ طاقت ور ترین گروہ یعنی ریاست یا طاقت طے کرتا ہے کہ تمہارے ردعمل کا معیار کیا ہونا چاہیے اور کس معیار تک تمہیں جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر ایران نے اگر یہی حملے قطر کے بجائے ترکی یا سعودی عرب جیسے ریاست پر کیے ہوتے تو لازماً وہ اس کا مختلف ردعمل دیتے کیونکہ طاقت ور ریاستوں کی عزت بھی اہم ہوتی ہے۔ یہی حملے روز عراق اور شام میں ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک زمانے میں جو طاقت ان کے پاس تھی وہ اب نہیں ہے اس لیے اب ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور ہر روز اسرائیل اپنے مختلف اہداف کو ان علاقوں میں نشانہ بناتا ہے۔ گو کہ ایران امریکہ کے خلاف ان حملوں سے کوئی خاطر خواہ نتائج بھی برآمد کرنے سے قاصر رہا اور اسے پہلے سے ہی اس بات کا احساس تھا کہ یہ حملے صرف اپنی ریاستی سالمیت کی حیثیت باور کرانے کے لیے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ایران نے حملوں سے پہلے امریکہ کو آگاہ کیا تھا جس کی وجہ سے ہمارے لیے اپنے فوجیوں کی سلامتی یقینی بنانے میں آسانیاں ہوئیں۔ یعنی اگر طاقت ور تمہارا دشمن بھی ہے لیکن پھر بھی آپ کو ان کے ریڈ لائن کا خیال رہتا ہے جبکہ کمزور تمہارا دوست ہی کیوں نہ ہو، اس کے لیے تمہیں کوئی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، جیسے کہ قطر۔ یہی صورت حال عراق اور ایران کی جنگ کے بعد بھی دیکھنے کو ملی جب عراق ایران کے خلاف لڑ رہا تھا تو کویت نے اسے بلین ڈالرز دیے، ایک کمزور مگر معاشی حوالے سے مضبوط ریاست کی وجہ سے انہوں نے عراق کی مدد کی اور جب اسے ایران کے ہاتھوں بری طرح شکست کا سامنا ہوا تو انہوں نے اپنا غصہ کویت پر قبضہ کرتے ہوئے نکالا اور دو دنوں کے اندر کویت عراق کے قبضے میں آ گئی۔ معاشی ترقی اور طاقت کے باوجود آج بھی خلیجی ممالک طاقت سے محروم ہیں کیونکہ ان کے پاس مضبوط فوج نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے امریکہ سے سیکورٹی گرنٹی لی ہوئی ہے لیکن یاد رہے کہ طاقت ور کمزور ممالک کے مفادات دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے مفادات اور طاقت دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔
ہر ریاست کی پہلی ترجیح زیادہ سے زیادہ طاقت حاصل کرنا ہوتا ہے، چاہے وہ طاقت سیاسی حوالے سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے، جس طرح کہ دیگر ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا، وہاں کے فیصلہ سازی میں اپنے اثرات ڈالنا یا اپنے مفادات کا تحفظ کرنا، جیسے خلیجی ممالک پر امریکی اثر و رسوخ ہو، یا یورپ کے چھوٹے ممالک پر امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا اثر و رسوخ ہو۔ سیاسی اثر و رسوخ کا مقصد بھی کسی نہ کسی طرح اپنی طاقت کو بڑھانا ہوتا ہے، بل پاس کروانے سے لے کر مالی فائدے حاصل کرنے تک، ہر معاملے میں کوئی بڑی طاقت کا اثر رہتا ہے۔ جس طرح سیاسی طاقت بڑھانے کی کوشش ہے، اسی طرح فوجی اور اقتصادی طاقت بڑھانا بھی ایک طاقت ور ریاست کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ کسی بھی ملکی بجٹ میں سب سے زیادہ پیسہ دفاع پر لگایا جاتا ہے کیونکہ ہر کسی کو ایک دوسرے سے خطرہ ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ایک ایسی حکومت یا پولیس نہیں جو سب کی ہو، بلکہ ہر ریاست خود میں آزادانہ طور پر کام کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ہر ایک کو کسی نہ کسی طرح دوسرے سے خطرہ رہتا ہے۔ کوئی بھی ریاست نہیں چاہتی کہ اس کے مقابلے میں کوئی دوسری ریاست زیادہ طاقت ور ہو، کیونکہ پھر اسے خوف لگنے لگتا ہے، اور یہی ہوا ہے۔ جب بھی کوئی ریاست طاقت ور ہوتی ہے تو وہ اپنے ارد گرد کی ریاستوں پر غلبہ پا لیتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ ویسٹرن ہیمسفیئر میں کسی بھی ریاست کو غلبہ حاصل کرنے نہیں دے گا، وہ خود کو اس خطے کا بادشاہ تصور کرتا ہے۔ کیوبا میزائل کرائسس بھی اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ روس کیوبا، جو ایسٹرن ہیمسفیئر کا حصہ ہے، میں اپنے نیوکلیئر ہتھیار رکھنا چاہتا تھا جس پر امریکہ آگ بگولہ ہو گیا اور ساوتھ یونین تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھتے بڑھتے رہ گئی تھی، فیصلہ تب ہوا جب امریکہ نے ایسٹرن یورپ سے اپنے نیوکلیئر ہتھیار نکال دیے تھے۔ اور حالیہ دنوں یوکرائن میں ہونے والی جنگ کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ روس چونکہ ایسٹرن یورپ میں خود کو طاقت ور کے طور پر دیکھتا ہے لیکن یہاں نیٹو کی موجودگی کو اپنے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے جو یہاں روس کی طاقت کو چیلنج کرنے کا سبب بنے گا۔ یا چین اس وقت ساؤتھ ایسٹ ایشیا میں امریکہ کی موجودگی کو لے کر سنجیدہ ہے کہ امریکہ کی موجودگی اس کی طاقت اور اثر و رسوخ کے لیے ایک خطرہ ہے، جس کی سب سے بڑی مثال تائیوان کے معاملے میں امریکی ہٹ دھرمی اور بار بار چین کو تائیوان پر چھڑ دوڑنے کے خلاف دھمکی دینا ہے کیونکہ جب تک خطے میں امریکہ موجود رہے گا، چین کے لیے تائیوان یا خطے کے دیگر چھوٹے ممالک پر غلبہ حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ اس سلسلے میں چین ان علاقوں میں معاشی اور اقتصادی ترقی کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہ رہا ہے جو یقیناً جلد ملٹری مفادات کی شکل میں بھی سامنے آئیں گے۔
گریٹ پاور پالیٹکس اور موجودہ ورلڈ آرڈر
گزشتہ چند سالوں سے دنیا میں امریکی سپریمیسی پر چلنے والے لبرل ورلڈ آرڈر کو شدید دھچکہ پہنچا ہے، جہاں کچھ وقت پہلے دنیا بھر میں امریکہ پولیسنگ کا کام کرتا تھا اور جہاں بھی چاہتا وہاں کے معاملات میں مداخلت کر کے اپنے مفادات اور اپنے اتحادی اور پارٹنر کے مفادات کا تحفظ کر سکتا تھا۔ اب بدلتے ورلڈ آرڈر میں چیزیں مکمل طور پر بدلتی نظر آ رہی ہیں۔ روس اور یوکرائن کے تنازع میں یوکرائن کو مکمل سپورٹ کرنے کے باوجود بھی امریکہ روس کو یوکرائن کے کئی علاقوں پر قبضے کرنے سے روکنے میں ناکام رہی ہے، اسی طرح اب تین سال مسلسل جنگ کے باوجود امریکہ تھک ہار کر کسی نہ کسی طرح یوکرائن اور روس کے تنازع کو حل کرنا چاہتا ہے جس نے امریکہ کو بلینز آف ڈالرز کا نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ چین کے خلاف دو سے تین مرتبہ ٹریڈ وار شروع کرنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور چاہتے ہوئے بھی چین کی حالیہ معاشی ترقی کو روکنے میں ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ اس سلسلے میں چین کی معاشی ترقی کے عمل کو چھوڑ کر وہ اسے ملٹری حوالے سے کمزور رکھنا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ اگر چین معاشی ترقی اور طاقت کے بعد فوجی اور دفاعی حوالے سے بھی مضبوط ہو گیا تو وہ آنے والے وقت میں امریکہ کی طاقت کے لیے بہت سے بڑے چیلنجز پیدا کر سکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حالیہ دنوں چین کی جانب سے روس کی معیشت کو بچانے سمیت روس کو ملٹری انسٹرومنٹ سپلائی کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یوکرائن کے خلاف بیشتر ڈرون اور دیگر ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے پرزے چین سے روس آتے ہیں اور وہاں سستے داموں مل جاتے ہیں جس نے روس کو یوکرائن کے خلاف ایک منظم فوجی طاقت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح چین نے حالیہ ایران اور اسرائیل جنگ میں بھی ایران کو مختلف طریقوں سے سپورٹ کرتے ہوئے اسے دفاع کے حوالے سے مضبوط رکھا، چاہے وہ پاکستان کو انڈیا کے جنگ کے دوران ٹیکنالوجی اور بہترین ہتھیار کی سپلائی ہو یا روس کو جنگ کے دوران معاشی اور فوجی حوالے سے سپورٹ کرنا، چین آج امریکہ کے مقابلے میں ایک مضبوط معاشی طاقت ور ریاست کی حیثیت سے سامنے آ چکا ہے اور امریکہ کا لبرل ورلڈ آرڈر اب دنیا بھر میں چیلنج ہو رہا ہے۔ گو کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لبرل ورلڈ آرڈر مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور اب گریٹ پاور پالیٹکس میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، البتہ پہلے کے نسبت اب اس کی حیثیت کم رہ گئی ہے اور زیادہ تر یورپ میں محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ گریٹ پاور پالیٹکس میں اب مختلف خطوں میں مختلف طاقتیں ابھر کر سامنے آ رہی ہیں جو امریکہ کی طاقت کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت ور حیثیت منوا بھی رہے ہیں۔ انڈیا کسی نہ کسی طرح آج ساؤتھ ایشیا میں خود ایک طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے اور امریکہ کے ساتھ برابری کے تعلقات کا خواہاں ہے اور کسی بھی طرح امریکہ یا یورپ کے دباؤ میں دکھائی نہیں دیتا اور کوشش کر رہی ہے کہ خود کو چین کے مقابلے میں ایک طاقت کے طور پر سامنے لائے۔ اسی طرح اگر چین کی بات کی جائے تو وہ آج ایک طاقت کے طور پر ایسٹ ایشیا میں سامنے آ چکی ہے اور آہستہ آہستہ پورے ایشیا میں چین کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں جو یقیناً لبرل ورلڈ آرڈر اور رول بیسڈ ورلڈ آرڈر کے لیے ایک خطرے کی گھنٹی کے حساب ہے۔ جبکہ حالیہ دنوں، پاکستان انڈیا جنگ ہو یا یوکرائن اور روس کے درمیان ہونے والے تنازع میں روس کی پیش قدمی اور مضبوط کئی یوکرائنی علاقوں پر روسی قبضے سے ایران اور اسرائیل جنگ کے درمیان امریکہ کی طرف سے جنگ کو روکنے کا عمل ہو، یہ تمام فیکٹر کسی نہ کسی طرح یہ باور کرا رہے ہیں کہ اب دنیا میں لبرل ورلڈ آرڈر کی طاقت کمزور ہوتی جا رہی ہے اور حالیہ دنوں ٹرمپ کی چند پالیسیوں نے نیٹو اور یورپ کو بھی کسی نہ کسی طرح تقسیم کر دیا ہے۔ فرانس، جرمنی اور یو کے اب گلوبل سیاست میں کسی نہ کسی طرح مکمل طور پر غیر اہم ہو چکے ہیں جبکہ اب یورپ میں بھی ان کی پوزیشن اسی طرح رہ گئی ہے۔ امریکہ کے حالیہ جارحانہ پالیسیوں نے یورپ کے اتحاد کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ گو کہ روس کی جارحانہ پالیسیوں اور قبضے کے ڈر سے تمام یورپی ریاستیں کسی نہ کسی طرح امریکہ کے شرائط پورا کرنے پر مجبور دکھائی دے رہی ہیں لیکن جس دن یوکرائن اور روس کا تنازع ختم ہوگا تو یہ حالات مختلف ہو سکتے ہیں اور ٹرانسیشنل الائنس کسی بھی وقت بکھر سکتا ہے۔ اسی حقیقت کو سمجھ کر اب ٹرمپ انتظامیہ کوشش کر رہی ہے کہ نیٹو سمیت دیگر الائنسس کو صرف نظریاتی نہیں بلکہ اقتصادی اور ہر حوالے سے مضبوط رکھے، جبکہ گرین لینڈ کو بھی ٹرمپ کسی نہ کسی طرح امریکہ کے زیر کنٹرول لانے کی خواہش مند ہے لیکن اس کے لیے کوئی لائحہ عمل امریکہ کے پاس دیکھائی نہیں دے رہا ہے۔
گریٹ پاور پالیٹکس میں کمزور ریاستوں کی پوزیشن
دنیا میں اگر کوئی ریاست کسی بھی چیز پر لعنت بھیج سکتی ہے تو وہ اقتصادی، معاشی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کمزوری ہوگی، کیونکہ ان شعبوں میں کمزور ہونے کا مطلب ایک کمزور ریاست ہونا ہے اور ایک کمزور ریاست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی کوئی اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی نہیں ہو سکتی، آپ کو کسی نہ کسی طاقت ور کے ساتھ اتحادی کی صورت میں رہنا ہوگا اور کسی نہ کسی طاقت ور کی باتوں کی پیروی کرنی پڑے گی۔ جب تک آپ ایک مضبوط اور ناقابلِ شکست طاقت نہیں بنیں گے، آپ کے لیے عالمی سیاست کے اندر زندہ رہنے کے لیے کسی نہ کسی بڑی طاقت کے ساتھ تعلقات بنانے ہوں گے اور اسی کے ذریعے اپنی سیکورٹی کی گارنٹی لینی ہوگی۔ کیونکہ ریئلزم کی سیاست یہی کہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح طاقت ہی سیاست اور دنیا کے معاملات کو ڈیل کرتی ہے۔ جب تک آپ ایک ناقابلِ شکست طاقت نہیں بنیں گے، آپ کو کسی نہ کسی لحاظ سے ایک طاقت ور ریاست کی باتوں کی پیروی کرنی پڑے گی، کیونکہ وہی ریاست آپ کی سیکورٹی، معاشی مدد اور کمک کا سبب رہتی ہے۔ اور اگر آپ کسی ایک ایسے بڑے اتحاد سے بھی محروم ہیں اور آپ کی اپنی ریاستی طاقت بھی اس حد تک نہیں کہ آپ گریٹ پاور پالیٹکس کے زمرے میں آئیں تو آپ کے لیے سنجیدگی سے سوچنے کا مقام ہو سکتا ہے، کیونکہ آپ کسی بھی وقت حملے کی زد میں آ سکتے ہیں اور آپ کو اپنی آزادی اور ریاست کی تباہی دیکھنا پڑ سکتی ہے۔
مثال کے طور پر کویت جیسی ریاست جو معاشی لحاظ سے مضبوط رہی ہے مگر دفاع میں کمزوری کی وجہ سے عراق نے اسے دو دن کے اندر، بلکہ ایک دن کے اندر قبضہ کر لیا اور تمام کی تمام حکومت کویت چھوڑ کر چلی گئی۔ یہ تو کویت کی معاشی فائدے اور صدام حسین کی بدترین اور جابرانہ حکومت تھی جس نے مغرب کو مجبور کر دیا کہ وہ کویت سے عراق کا قبضہ چھڑائیں، کیونکہ کویت کے آئل اور تیل دنیا بھر میں کھربوں ڈالر کے تھے اور عراق مغرب مخالف اور ایک طاقت ور فوج اور جارحانہ ڈکٹیٹر کے زیرِ اثر تھا۔ مغرب کو اس بات کا خوف تھا کہ اگر انہوں نے وقت پر اقدامات نہ لیے تو عراق کویت سمیت دیگر خلیجی ممالک پر قبضہ کر سکتا ہے اور اس سے عراق ایک طاقت ور معاشی ریاست بن جائے گا۔ اور اگر عراق خطے میں ایک طاقت ور ریاست بن گیا تو وہ اسرائیل کو تباہ کر دے گا اور ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ اور اس پورے خطے سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے مفادات کی دھجیاں اڑا دے گا۔ لیکن سب سے بڑی پریشانی مغرب کو اس بات کی تھی کہ اگر صدام حسین نے کویت اور خطے کے آئل پر قبضہ کر لیا تو اس خطے سے ایک تو ہمارا خاتمہ ہوگا، دوسرا دنیا بھر کا آئل عراق کے ہاتھوں آ جائے گا جو مغرب مخالف ریاست ہے۔
اسی خوف اور ڈر کی وجہ سے نیٹو نے کویت سے عراق کے قبضے کا خاتمہ کر دیا اور عراق کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہی کویت، قطر اور دیگر ممالک میں امریکہ نے اپنی فوجیں اتار دیں۔ کیونکہ مغرب کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ اگر انہوں نے اس خطے یعنی بحیثیت ایک عالمی طاقت خلیجی ممالک کی سیکورٹی چیلنج کو حل کرتے ہوئے اسے اپنے زیرِ اثر نہیں لایا تو کل کو یہ کسی دوسرے طاقت ور ملک کے ساتھ اتحادی ہو سکتا ہے جو پھر مغرب کے مفادات کی دھجیاں اڑا سکتا ہے۔ اس لیے امریکہ نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے خطے میں اپنے فوجی بیسز بنائے، صرف قطر اور کویت میں نہیں بلکہ سعودی عرب تک انہوں نے اپنے فوجی اڈے پھیلائے۔ جبکہ یہ ریاستیں چونکہ دفاعی لحاظ سے کمزور تھیں، تو انہیں اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ اگر عراق نے آج کویت پر قبضہ کر لیا ہے تو کل کو ایران اٹھ کر کسی ریاست پر قبضہ کر سکتا ہے، کیونکہ دفاعی لحاظ سے کمزوری کا مطلب یہی ہے کہ تمہاری ریاست محفوظ نہیں ہے اور اسے کسی بھی وقت حملے کا نشانہ بنا کر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔
یعنی آج یہ کمزور ریاستیں، جو نظریاتی طور پر امریکہ کے خلاف ہیں، جو نظریاتی طور پر امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو سپورٹ کرنے اور غزہ میں جو نسل کشی کی جا رہی ہے اس کے خلاف ہیں، مذہبی لحاظ سے بھی وہ امریکہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں، بلکہ کسی بھی لحاظ سے وہ مغرب سے تعلق نہیں رکھتیں، لیکن اس دفاعی بنیاد پر، ایک طاقت ور ریاست ہونے کی وجہ سے انہوں نے امریکہ کے ساتھ اس حد تک تعلقات بنائے رکھے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ کل کو ایران قطر پر حملہ کرنے اور اس پر قبضہ کرنے سے پہلے اسلامی نظریات نہیں دیکھے گی بلکہ اپنی طاقت کا اندازہ لگائے گی۔ اسی طرح کل کو عراق واپس کویت پر حملہ کرنے سے پہلے انسانی حقوق اور عرب شناخت نہیں دیکھے گا بلکہ طاقت کی بنیاد پر وہ حملہ کرے گا۔ اور انہیں اس بات کا علم ہے کہ کل کو اگر ہم پر کوئی حملہ ہوا تو پاکستان، ایران، سعودی عرب یا کوئی مسلمان ملک ہمارے ساتھ آ کر نظریاتی بنیاد پر جنگ نہیں لڑے گا، بلکہ ہماری جنگ وہی لڑے گا جس کے ساتھ ہمارے معاہدے اور تعلقات ہوں گے اور وہی لڑے گا جو طاقت ور ہوگا، جس کے پاس ایسی قوت اور طاقت ہوگی جس پر حملہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لیا جائے گا۔ اس لیے تمام کے تمام خلیجی ممالک نے امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کیے، حتیٰ کہ یورپ کے بیشتر ممالک کے بھی دفاعی تعلقات امریکہ کے ساتھ اسی بنیاد پر ہیں کہ ہمیں کوئی اس وجہ سے نشانہ نہیں بنائے گا کیونکہ ہماری سیکورٹی گارنٹی امریکہ نے لے لی ہے۔
حالیہ دنوں یوکرین کے صدر اور امریکہ کے درمیان اسی بات پر جھگڑا ہوا کہ یوکرینی صدر زیلینسکی ہر حال میں امریکہ سے سیکورٹی گارنٹی چاہتے ہیں، یعنی جب امریکہ سیکورٹی گارنٹی دے گا اور کل کو روس واپس یوکرین پر حملہ کر دے گا تو اسے امریکہ سے لڑنا ہوگا اور روس یا کوئی بھی طاقت اس طرح کی بے وقوفی نہیں کر سکتا اور امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں لے سکتا، کیونکہ جنہوں نے امریکہ کے ساتھ جنگ لڑی ہے انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ جنگوں میں امریکہ کس طرح ایک نہار بن جاتا ہے اور کس طرح ایک ظالم اور جابر طاقت ور کی طرح ڈیل کرتا ہے۔ اس کی مثال افغانستان، عراق، لیبیا اور خطے بھر کی مسلح تنظیمیں اور امریکہ مخالف ریاستیں جانتے ہیں۔ کیونکہ ایک کمزور ریاست کو ہر حال میں ایک طاقت ور ریاست کی سیکورٹی گارنٹی چاہیے ہوتی ہے۔ آج اگر تائیوان پر اس وقت تک حملہ نہیں ہوا ہے تو اس کی وجہ تائیوان کی اپنی سیکورٹی فورسز نہیں ہیں، کیونکہ چین کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ وہ تائیوان کو اس کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ ایک ہی دن میں قبضہ کر لے گا اور کوئی مزاحمت بھی نہیں ہوگی، لیکن اگر چین نے اب تک ہاتھ روکے رکھے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ امریکہ کی تائیوان کو دی گئی یہ سیکورٹی گارنٹی ہے کہ ہم تائیوان کے دفاع میں چین کے خلاف لڑیں گے اور اگر چین نے تائیوان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اسے امریکی فوجیوں سے لڑنا ہوگا اور چین اب تک اس طرح کی غلطی کرنے سے گریزاں ہے۔ اگر یہی سیکورٹی گارنٹی امریکہ کے بجائے مشرقی ایشیا کے کسی بھی ریاست نے دی ہوتی تو اب تک چین تائیوان کو آفیشل سطح پر چین کا حصہ بنا چکا ہوتا، کیونکہ اس خطے میں چینی طاقت سے لڑنے کی صلاحیت کسی بھی ریاست میں نہیں ہے۔ البتہ بھارت اس خطے میں چین کے خلاف ایک مؤثر طاقت ہو سکتا ہے لیکن اب تک انہوں نے یہ ثابت نہیں کیا ہے، جبکہ چین خطے کے دیگر ممالک کو بالائے طاق رکھ کر جنوبی چین سمندر پر مکمل قبضہ کرتا جا رہا ہے۔ ماسوائے جاپان کے، جو اس وقت چین کے خلاف ایک طاقت کے طور پر موجود ہے اور کسی نہ کسی سطح پر اس پر کام کر رہا ہے۔ جاپان کے علاوہ کوئی بھی ریاست چین کے عزائم کے سامنے ٹک نہیں پا رہا ہے اور چین کے اقدامات کے خلاف صرف احتجاج پر اکتفا کیے ہوئے ہیں۔ طاقت ور کے سامنے اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟
گریٹ پاور پالیٹکس میں بات سیدھی ہے: جب تک آپ طاقت ور نہیں بنیں گے، جب تک آپ اپنی آبادی کو طاقت ور نہیں بنائیں گے، جب تک آپ ایک مضبوط فوج اور آرمی کی بنیاد نہیں رکھیں گے، جب تک آپ ٹیکنالوجی سے لے کر معیشت تک ایک طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آئیں گے، اس وقت تک آپ کی کوئی بھی حیثیت نہیں رہے گی۔ عام طور پر کچھ ریاستیں اپنی تاریخی حیثیت کو لے کر کچھ حد تک اس غلط فہمی میں رہتی ہیں کہ ہماری ایک تاریخ، کلچر، بڑی زمین یا بڑی آبادی ہے اس لیے ہمارا طاقت پکا ہے اور ہمیں کوئی بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا، لیکن گریٹ پاور پالیٹکس میں اس طرح نہیں ہوتا۔ وہاں آپ کی زمین دیکھی نہیں جاتی۔ سنگاپور ایک شہری ریاست ہے، لیکن اس کے باوجود وہ دنیا بھر کی عالمی طاقتوں کے لیے صرف اس وجہ سے قابلِ قبول ہے اور جی سیون یا چند یورپی اتحاد کا حصہ ہے کیونکہ وہ معاشی طور پر ایک طاقت کے طور پر موجود ہے، جبکہ یورپ اور افریقہ بھر میں درجنوں بڑی ریاستیں ہونے کے باوجود ان کی عالمی سیاست میں کوئی بھی حیثیت نہیں ہے۔ اسی طرح مصر، برطانیہ، عراق، شام، ترکی تاریخی لحاظ سے انتہائی وسیع تاریخ اور تہذیب رکھتے ہیں لیکن آج عالمی سیاست میں انہیں کوئی حیثیت نہیں دیتا، بلکہ اسرائیل جیسے ایک چھوٹی، ایک کروڑ آبادی پر مشتمل ریاست، جو تقریباً بلوچستان کے مکران کے علاقے کے برابر ہوگی، آج دنیا بھر میں ایک طاقت کے طور پر دیکھی جاتی ہے اور اس کی عزت کی جاتی ہے۔ بھارت جیسا بڑا ملک اس کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے، مشرقِ وسطیٰ کی بیشتر ریاستیں اس سے لڑ تھک کر اب اس کے ساتھ صلح کرنا چاہتی ہیں، امریکہ میں آج اسرائیل سے زیادہ کسی بھی ریاست کی لابی نہیں چلتی، اسی امریکہ کے ساتھ دنیا بھر کی ریاستیں تعلقات بنانے کے لیے تڑپتی ہیں لیکن وہی امریکہ کسی نہ کسی طرح ہر لحاظ سے اسرائیل کی سیکورٹی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اسرائیل کے لیے ہر جگہ اور ہر مقام پر کھڑا رہتا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ امریکہ میں یہودیوں کی ایک لابی موجود ہے بلکہ اسرائیل نے طاقت کے ڈومین میں خود کو ثابت کر دیا ہے۔ موساد کی انٹیلی جنس نے خود کو دنیا کی طاقت ور ترین انٹیلی جنس ثابت کر دیا ہے اور امریکہ کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات نظریات سے زیادہ اسٹریٹجک ہیں، کیونکہ امریکہ کو بھی ایسی طاقت ور ریاستوں کی اتحاد کی ضرورت ہے کہ کل کو اگر امریکہ کے خلاف کوئی جنگ چھڑتی ہے تو اسرائیل جیسے طاقت ور ریاست اس کی مدد صرف جذباتی بنیاد پر نہیں کرے گی بلکہ اسرائیل کی طاقت ور آرمی، انٹیلی جنس اور دفاعی نظام امریکہ کی مدد کرے گا۔
کہنے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ آپ کی طاقت ہی اس بات کو ڈیفائن کرے گی کہ دنیا آپ کے ساتھ کس طرح کے تعلقات قائم کرنا چاہے گا۔ اگر کسی قوم، تحریک اور بالخصوص بلوچ جدوجہد کرنے والوں سے مخاطب ہو کر کہوں تو کہوں گا کہ اگر ہم نے صرف اس بنیاد پر دنیا سے مدد کی امید رکھی کہ ہم ایک ریاست کے وکٹم ہیں، کسی طاقت ور ظالم ریاست کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہیں، ہماری نسل کشی ہو رہی ہے، ہمارے لوگ اغوا ہو رہے ہیں، صرف اس بنیاد پر ہماری مدد کرو تو ہماری حالت بھی انہی قوموں جیسی ہوگی جو وکٹم تو دنیا بھر میں سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کی مدد کوئی بھی نہیں کرتا۔ دنیا میں صرف طاقت کے ساتھ لوگ اتحاد بناتے ہیں اور طاقت کے ساتھ ہی اتحاد بنانے میں انہیں فائدہ ملتا ہے۔ کمزور کے ساتھ کوئی بھی ریاست کوئی بھی طاقت اتحادی نہیں ہو سکتی۔ ہم صرف ریاست اور دیگر طاقتوں سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد مانگنے کے بجائے اپنی طاقت بڑھانے اور دنیا بھر میں اپنی اصل طاقت ثابت کرنے پر توجہ دیں تو شاید کل کو کسی ایک طاقت ور ریاست کے مفادات یہاں جڑ سکتے ہیں اور ایک طاقت ور قومی تحریک بن کر ہی دنیا میں ہماری کوئی حیثیت بن سکتی ہے۔
گریٹ پاور پالیٹکس اور طاقت کا تعلق
گریٹ پاور پالیٹکس کا طاقت کے ساتھ گہرا تعلق ہے، بلکہ عام الفاظ میں کہا جائے تو طاقت کا مطلب ہی گریٹ پاور پالیٹکس ہے، کیونکہ جب تک آپ طاقت ور نہیں بنیں گے، جب تک آپ دنیا کے سامنے ایک طاقت ور ریاست کی حیثیت حاصل نہیں کریں گے، جب تک آپ ایک طاقت ور قوم بن کر نہیں دکھائیں گے اور دنیا کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ نہیں کریں گے، جب تک آپ ٹیکنالوجی، انفارمیشن وارفیئر، دفاع، معاشی لحاظ سے ایک طاقت کے طور پر اپنی پہچان نہیں بنائیں گے، اس وقت تک گریٹ پاور پالیٹکس میں آپ بطور ایک پلیئر یا ریاست شمار نہیں ہوں گے۔ جب ہم گریٹ پاور پالیٹکس کی بات کرتے ہیں تو اس میں صرف انہی ریاستوں کا ذکر ہوگا جو آج اقتصادی، فوجی اور ٹیکنالوجی کے زمرے میں طاقت کے طور پر موجود ہیں۔ پاور پالیٹکس کی بنیادی تصور یہی ہے کہ جب آپ معاشی لحاظ سے مضبوط ہو جائیں گے تو آپ اپنی فوجی طاقت بڑھانے پر توجہ دیں گے، کیونکہ فوجی طاقت کے بغیر آپ کی معاشی طاقت کو اتنی زیادہ عزت نہیں ہوگی اور جب بھی کسی ریاست کا دل چاہے گا وہ آپ پر قبضہ کر لے گا۔ اسی وجہ سے جب کوئی ریاست معاشی لحاظ سے ترقی کرتی ہے تو اپنی فوج پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اس کی مثال امریکہ، چین، روس، بھارت جیسی طاقتیں ہیں، کیونکہ انہیں اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ دفاع بنیادی شرط ہے۔ اسی طرح آج ٹیکنالوجی بھی اس طاقت کا حصہ بن چکی ہے اور ہر طاقت ور ریاست اس پر کام کر رہی ہے، کیونکہ موجودہ گلوبلائزیشن کے دور میں میڈیا پر طاقت ور اور قابض طاقت ہی دنیا پر راج کر سکتی ہے، اپنا بیانیہ لوگوں تک پہنچا سکتی ہے اور دنیا کے کلچر سے لے کر اس کی نارمل زندگی تک اثرانداز ہو سکتی ہے۔
ایک طاقت ور کسی بھی لحاظ سے ایک دوسرے طاقت ور ریاست کو خود سے زیادہ طاقت ور نہیں دیکھنا چاہتا اور وہ اس کو روکنے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کر سکتا ہے۔ اس کی مثال امریکہ کی طرف سے چین کے خلاف مختلف قسم کے ہتھکنڈے شامل ہیں (اس کا قطعی مقصد یہ نہیں کہ چین ایک اچھی اور صاف شفاف ریاست ہے، بلکہ چین کے اپنے عالمی عزائم ہیں، کئی علاقوں میں جبر میں اس کے ہاتھ رنگے ہیں، اور دنیا بھر میں اپنے جرائم کی لسٹ کو وہ مزید آنے والے وقت میں بڑھانا چاہتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد نظریاتی یا جذباتی سے زیادہ طاقت کے حقیقی پلیئر اور طاقت ور ہونے کی بنیادی سوچ کو بیان کرنا ہے اور سارا توجہ اسی پر دیا جا رہا ہے)۔ کیونکہ امریکہ کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ اگر چین کا راستہ نہیں روکا گیا تو وہ آنے والے دنوں میں دنیا بھر میں امریکی طاقت کو چیلنج کر سکتا ہے اور جب کوئی آپ کی طاقت کو چیلنج کرتا ہے یا آپ سے بڑا طاقت ور بن جاتا ہے تو اس کے نقصانات صرف ایک طاقت ور سے پیچھے ہونے کا نہیں ہوتا، بلکہ دنیا بھر میں وہ کمزور ریاستیں جو پہلے آپ کے پاس آتی تھیں، آپ سے منتیں کرتی تھیں، آپ کو پیسے دیتی تھیں، آپ کے مفادات کی تکمیل کرتی تھیں، کوسوں دور رہ کر آپ یہاں کی حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں، یہاں کے تیل پر آپ کا قبضہ ہے، یہاں سے معاشی مفادات آپ حاصل کر رہے ہیں، دنیا میں آپ کی ریاستی مفادات کو تحفظ دیا جا رہا ہے، دنیا بھر میں آپ کے شہری خوش اور انہیں ہر جگہ اور ہر مقام پر عزت دی جاتی ہے اور کمزور ہونے یا آپ سے کوئی طاقت ور جب بن جائے گا تو پھر یہ تمام آسائشیں جو بحیثیت ریاست آپ کو حاصل ہیں وہ تمام کی تمام آسائشیں آپ سے بڑے طاقت کے پاس جائیں گی اور آپ کی حیثیت پھر دوسری رہے گی۔ اسی طرح جب کوئی تیسری طاقت آئے گی تو پھر آپ کی حیثیت اس سے بھی زیادہ نیچے آئے گی۔ اسی وجہ سے آج جب دنیا بھر میں ایک بھی امریکی مرتا ہے تو دنیا بھر میں اس پر ہزاروں کہانیاں لکھی جاتی ہیں، ہزاروں قصے بنتے ہیں، دنیا کا سب سے تباہ کن منظر وہی ہوتا ہے جس کی مثال نائن الیون ہے، مگر نائن الیون میں امریکہ کو جن دو ہزار لوگوں کی جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، اس کے بدلے دنیا بھر میں افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور نجانے کن کن ممالک میں امریکہ نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں چھین لیں، لاکھوں لوگ امریکہ کی طاقت اور مختلف آپریشنز کے سبب جان سے گئے، لیکن ان پر کوئی قصہ، کوئی کہانی یا کوئی نائن الیون جیسا سانحہ نہیں۔ جب نائن الیون ذہن میں آتا ہے تو تباہی دماغ میں چھا جاتی ہے، مگر جب آپ تحقیق کریں تو دنیا بھر میں نجانے امریکہ کی جانب سے ایک آپریشن کے نتیجے میں نجانے ہزاروں ایسے نائن الیون پیدا ہوئے ہیں لیکن انہیں حیثیت صرف اس وجہ سے نہیں ہے کیونکہ وہ کمزور ریاست یا کمزور قوم سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ امریکی لوگوں کی حیثیت اس وجہ سے ہے کیونکہ وہ ایک طاقت ور ریاست سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور جب ہم گریٹ پاور پالیٹکس کی بات کرتے ہیں تو ہم اسی طاقت کی بات کر رہے ہیں کہ جب آپ طاقت ور رہیں گے اور طاقت ور بنیں گے تو پھر دنیا میں آپ کی عزت اور مقام ہوگا اور جب تک آپ طاقت ور نہیں بنیں گے اور طاقت کے لیے جستجو نہیں کریں گے اور دنیا کے مقابلے میں خود کو نہیں لائیں گے، اس وقت تک آپ کی کوئی بھی حیثیت نہیں رہے گی۔ اس وجہ سے اسرائیل وکٹم کارڈ کھیلنے سے زیادہ اپنی انٹیلی جنس موساد کو اس حد تک طاقت ور بناتا ہے جو اس کے طاقت ور ہونے کو واضح کر دیتا ہے، یعنی اس کی طاقت ور صلاحیت کو ثابت کرتا ہے، اور اسرائیل جیسی ریاستوں کو اس بات کا علم ہے کہ جب تک وہ طاقت ور نہیں بنیں گے اور جب تک طاقت کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو مشرقِ وسطیٰ میں عرب ریاستیں اسے کھا جائیں گی، اور اسے ہمدردی کی بنیاد پر کوئی بھی ریاست مدد نہیں کرے گی، اس لیے وہ اپنی طاقت بڑھانے پر زور دیتے ہیں۔ وہ ایک ایک اسرائیلی پر کام کرتے ہیں، اس کی صلاحیتوں کو بڑھاتے ہیں، ٹیکنالوجی سے لے کر ہر سطح پر انہوں نے خود کو ایک طاقت ور ریاست اور طاقت ور قوم کے طور پر منوا لیا ہے، اس لیے دنیا میں اب تمام کے تمام عرب ریاستیں بھی اسے قبول کرنے کے لیے راضی ہو گئی ہیں۔ (یہاں ان باتوں کا قطعی مقصد اسرائیل کے فلسطین میں ہونے والی نسل کشی کو نظرانداز کرنا نہیں بلکہ اس حقیقت کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر موجودہ عالمی نظام، ریئلزم اور حقیقت پسندانہ سیاست یقین رکھتا ہے اور یہی وہ کڑوا سچ ہے، جو بلوچ نوجوان کو پینا چاہیے اور وکٹم کارڈ سے زیادہ اپنی طاقت بڑھانے پر توجہ دینا چاہیے جو اس کی کامیابی اور بقا کو یقینی بنا سکتا ہے۔ ایک بلوچ نوجوان کے لیے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ایک طاقت ور قوم بن کر ہی وہ اپنی بقا یقینی بنا سکتے ہیں، اور جب ہم طاقت کی بات کرتے ہیں تو وہ ہر شعبے میں طاقت ور ہونا ہوتا ہے)
گریٹ پاور پالیٹکس اور عالمی قوانین
گریٹ پاور پالیٹکس میں عالمی قوانین کی حیثیت اس طرح ہے جس طرح ہمارے یہاں موجودہ وقت میں قبائلی سرداروں کی حیثیت رہ گئی ہے، بلکہ قبائلی سردار بھی کسی محدود پیمانے پر اثر رکھتے ہیں، یا حتی کہ ایک چھوٹے علاقے یا قبیلے کے اندر تو اثر رکھتے ہیں لیکن بلوچستان کے سیاسی، فوجی، دفاعی، اور قابض دہشتگرد ریاست کے خلاف بلوچ جدوجہد اور جنگ و قومی تحریک کے سامنے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اسی طرح گریٹ پاور پالیٹکس میں عالمی قوانین کی حیثیت یہی رہ گئی ہے۔ حالیہ دنوں جب انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے نیتن یاہو کو فلسطین میں جاری نسل کشی پر مجرم قرار دیتے ہوئے اس کی وارنٹ گرفتاری جاری کی تو امریکہ نے آئی سی سی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پیسوں پر چلنے والے اس ادارے کی اتنی حیثیت کیسے ہوئی کہ ہماری اجازت کے بغیر انہوں نے ہمارے اتحادی یعنی اسرائل کے سربراہ کو گرفتار کرنے کا کہا ہے۔ یعنی جس ادارے کو دنیا بھر میں طاقت ور ترین ادارہ سمجھا جاتا ہے، جہاں ایک ایونٹ کو لیکر ہم خوش ہو جاتے ہیں، اس کی اتنی بھی حیثیت نہیں ہے کہ وہ ایک ملک کے سربراہ کو گرفتار کرنا تو دور کی بات، اس کی وارنٹ گرفتاری جاری کر سکے، اور وارنٹ کی جاری ہونے کے بعد، اس کے ہیڈ کوارٹر یعنی امریکہ میں نیتن یاہو کئی مرتبہ آئے اور چلے گئے ہیں لیکن انہیں اس بات کا فرق بھی نہیں پڑتا کہ اس کے خلاف کوئی وارنٹ گرفتاری موجود ہے اور دنیا میں کوئی بھی طاقت ور ریاست یو این کو کوئی بھی حیثیت نہیں دیتا، حتی کہ یو این کے اندر سیکورٹی کونسل کے مستقل ممبر یعنی پانچ ریاستوں کو ویٹو کی حیثیت دی گئی ہے، اور یہ حیثیت طاقت کی بنیاد پر ان ریاستوں کو دی گئی ہے، جس میں ایک ریاست کے کسی بھی معاملے پر ویٹو کرنے سے اس پر کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی اور کارروائی روک دی جاتی ہے، یعنی دنیا کے 90 فیصد ریاستیں بھی کسی معاملے پر کوئی قانون پاس کرنا چاہے یا کسی معاملے پر اقوام متحدہ سے کارروائی کی جستجو کرے اور صرف ایک ریاست اس پر آمدہ نہ ہو تو وہ کارروائی عمل میں نہیں لایا جاتا، یو این کے اندر ان پانچ ریاستوں کو ویٹو کی طاقت دینا کی مطلب ہی اس سوچ اور نظریے کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ جب تک آپ طاقت ور نہیں ہونگے، آپ کے رائے کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ہوگی، چاہے آپ جس حد تک سچ پر قائم رہے، جس حد تک حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے لیکن اس وقت تک آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی جب تک آپ ایک طاقت ور نہیں ہونگے۔ اسی سوچ اور نظریے کی بنیاد پر انسانی حقوق اور دنیا بھر میں جبر و ناانصافی کے خلاف اور دنیا بھر میں انصاف کا بول بالا کرنے کیلئے یہی ادارہ بنایا گیا ہے وہ خود پانچ طاقت ور ریاستوں کے ہاتھوں یرغمال ہے اور انہی کے سوچ، فکر اور نظریے کی بنیاد پر کام کر ہی ہے اور اور کسی بھی معاملے پر اگر ان میں سے کوئی بھی ریاست راضی نہیں ہوتا تو یو این کچھ بھی نہیں کر سکتا ہے، اس کی مثال روس کی جانب سے یوکرین پر حملہ کرنا ہے، گوکہ قانونی بنیاد پر یہ غلط ہے، یو این کو اس کے خلاف ایکشن لینا چاہیے تھا لیکن روس کو ویٹو حیثیت کی وجہ سے یو این کچھ نہیں کر سکتا ہے، اسرائیل اس لیے دنیا بھر میں خاص کر مڈل ایسٹ میں ہر ریاست کے خلاف جرائم میں شریک ہے، لبنان سے لیکر شام، عراق، ایران، ہر جگہ بمباری کر دیتا ہے، اور دنیا میں کسی بھی قانون کو بالائے طاق نہیں رکھتا، اس پر کوئی بھی کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ وہ ایک طاقت ور ریاست کا اتحادی ہے اور خود ایک طاقت ور ریجنل ملک ہے۔ اسی بنیاد پر اسے کچھ کہا نہیں جاتا، اگر یہی غلطی کوئی کمزور ریاست کرے، تو اس کو تباہ کیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ بڑی طاقتیں یہ کرتے ہیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عالمی قوانین صرف چارٹر کی حیثیت، اسٹیٹمنٹ اور بیانات کی حیثیت کی حد تک موجود ہیں، اور دنیا کو بےوقوف بنانے کیلئے ایک ادارہ قائم ہے جو انصاف کی بات کرتا ہے، جو ہر جنگ میں یہی بیان دیتا ہے کہ ڈی اسکیلیٹ کیا جائے، لیکن عملی بنیاد پر اسے کام کرنے کی کوئی بھی طاقت نہیں ہے، مثال کے طور پر یو این کی جانب سے غزا میں امدادی سرگرمی اسرائیل کی اجازت کے بعد ہی پہنچایا جا سکتا ہے اور جب تک اسرائیل اجازت نہ دے، یو این بھی غزا تک امدادی سرگرمی پہنچا نہیں سکتا، حتی کہ کئی مرتبہ یو این کے قافلوں پر بھی حملہ ہوا ہے، ان کے ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، انہیں قتل کیا گیا ہے اور اقوام متحدہ جو دنیا میں انصاف قائم کرنے کی بات کرتا ہے وہ خود اپنے اہلکاروں کو انصاف فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ وہ طاقت کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے بلکہ صرف اقوام متحدہ نہیں بلکہ انصاف و قوانین کے نام پر بنی جتنی بھی ادارے ہیں وہ خود ہی طاقت ور کے پیداوار ہیں۔ اقوام متحدہ کو ایک کمزور، انصاف و عدل پر یقین رکھنے والے ریاست نے نہیں بنایا بلکہ اقوام متحدہ خود انہی طاقت ور ریاستوں کی پیدائش تھی جو چاہتے تھے کہ دنیا میں دوسری عالمی جنگ کی طرح کوئی دوسرا بھیانک اور طاقت ور جنگ نہ ہو جس سے اتنی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہو، کیونکہ وہ جنگیں بھی انہی طاقت ور ملکوں نے خود لڑی تھی اور اس کے حوالے سے قوانین بھی انہوں نے خود لائے، ان کا چارٹر بھی خود بنایا اور اب اس پر عمل کرنا یا نا کرنا بھی انہی پر انحصار کرتا ہے، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ یہ عالمی ادارے، جیسے کہ اقوام متحدہ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس جیسے ادارے کمزور ریاستوں کو مزید دبانے پر اور ان پر اپنا کنٹرول بڑھانے کیلئے ان اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ جن ریاستوں کو پہلے جس طرح ریاستی طاقت سے دبایا جاتا تھا، ان سے جنگ لیا جاتا تھا، اس کے بجائے ان اداروں کے ذریعے اب ان کمزور ریاستوں اور قوموں پر اپنا غلبہ قائم رکھے اور انہیں اپنے زیر اثر لائے۔ اسی سوچ کے بنیاد پر ہی ان اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا ورنہ آج تک دنیا میں کوئی بھی عالمی جنگ اقوام متحدہ نے نہیں رکوایا ہے بلکہ یہ کام بھی طاقت ور ریاستیں خود کرتے ہیں، مثال کے طور پر سعودی اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدے کے پیچھے چین کی کوششیں شامل تھی، جبکہ حالیہ دنوں اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ ہو یا چند دیگر جنگیں انہیں بھی روکنے کی زمہ داری یہی طاقت ور ریاستوں نے لی ہے اور روس اور یوکرین کے درمیان موجود تنازع کو بھی اقوام متحدہ کے بدلے امریکہ حل کرنا چاہتا ہے کیونکہ امریکہ وہ طاقت ور ریاست ہے جو کسی نہ کسی طرح ہر ریاست پر اپنا اثر و رسوخ رکھتا ہے اور اس دنیا میں جب تک آپ خود اثر و رسوخ نہیں رکھتے آپ کی کوئی بھی حیثیت نہیں رہتی ہے۔
گریٹ پاور پالیٹکس اور انسانی حقوق
دنیا میں انسانی حقوق بھی انہی ریاستوں اور قوموں کے ہاتھوں میں ہیں جن کے پاس طاقت ہوتی ہے، ایک کمزور قوم، کمزور ریاست اور کمزور ملک اور ان کے لوگوں کے دنیا ریلیزم کی سیاست اور گریٹ پاورپالیٹکس کی سیاست میں کوئی بھی حقوق نہیں ہوتے ہیں، گریٹ پاور پالیٹکس کی بات کی جائے تو ان کے نظر میں صرف انہی ریاستوں کی حیثیت رہتی ہے اور انہی کے لوگوں کے مفادات اور انسانی حقوق اہمیت رکھتے ہیں جو طاقت ور ہیں یا کسی نہ کسی طرح طاقت ور ریاستوں کے نظریات یا ان کے رول بیسڈ آرڈر پر چل رہے ہیں، اس وقت تک جب تک وہ اسی راستے پر چل رہے ہیں، ان کے کسی نہ کسی طرح پابندی کر رہے ہیں، ان کی سیاست اور روزانہ کی بنیاد میں زندگی پر طاقت ور ریاستوں کا ہاتھ اور ان سے طاقت ور ریاستوں کے مفادات جڑے ہوئے ہیں، اس وقت تک ان کے حقوق موجود رہتے ہیں اور ان کے حقوق کی عزت بھی کی جاتی ہے، مثال کے طور پر یورپ کے لوگوں کی عزت رہتی ہے، ان کے حقوق ہوتے ہیں، اور اگر ان ممالک میں کسی بھی ریاست کے اندر لوگوں کے حقوق چھین لیے جائے تو وہاں کے بغاوتوں کو سپورٹ کیا جاتا ہے، وہاں تبدیلیاں لائی جاتی ہیں، عوامی طاقت سے حکومت گرائے جاتے ہیں، اور ان کے حقوق کی تحریکوں کو دنیا بھر میں سپورٹ بھی حاصل رہتی ہے لیکن یہ سہولت ان ملکوں کو حاصل نہیں جو طاقت کے زمرے میں نہیں آتے ہیں، جو کمزور ریاستیں ہیں، یہاں ان کے حکمران ان کے ساتھ جس طرح کرتے ہیں، مثال کے طور پر افریقہ میں آج ان کے لوگوں کے ساتھ جو بھی ہو رہا ہے، وہاں جس طرح بھی لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں، وہاں لوگوں کے ساتھ جس طرح بھی دہشتگردی ہو رہی ہے، یہی آئی ایس آئی ایس نے کسی بھی جگہ اتنی دہشتگردی نہیں کی ہے جتنی دہشتگردی وہ آج افریقہ میں کر رہی ہے، روزانہ داعش کے حملوں میں ہزاروں لوگ مارے جاتے ہیں لیکن دنیا میں ان کی کوئی بھی آواز نہیں ہوتی، اس پر عالمی میڈیا میں دبا دب پروگرام نہیں ہوتے، لیکن اگر اسی داعش کی جانب سے امریکہ، یورپ، چین، روس یا کسی بھی طاقت ور ریاست کے اندر ایک بھی کارروائی کی جائے تو اس کے خلاف پوری دنیا ردعمل دیتا ہے، اور اس کے خلاف بدترین اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، امریکہ سپورٹ کرنے آ جاتا ہے، پورا یورپ اس ملک کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے لیکن ایک کمزور ریاست کے پاس یہ سہولتیں نہیں ہوتیں، ان کے انسانی حقوق صرف وہی کے حکمران طے کرتے ہیں کہ انہیں کیا حقوق دینے چاہیے اور کیا حقوق نہیں دینے چاہیے اور وہ حکمران اپنے لوگوں کے ساتھ جس طرح کی برتاؤ رکھے ان سے دنیا کے طاقت ور ریاستوں کو کوئی بھی سروکار نہیں ہوتا ہے کیونکہ ان کے انسانی حقوق نہیں ہوتے ہیں۔ آج بلوچستان میں آئے دن کوئی نہ کوئی فیک انکاؤنٹر میں مارا جاتا ہے، کسی کو پاکستان اٹھا کر غائب کر دیتا ہے، کسی کو ہیلی کاپٹر سے نیچھے پھینک دیتا ہے، لیکن ایک کمزور قوم اور طاقت کی حیثیت سے دنیا تو دور کی بات، یہ باتیں کراچی کے لوگوں کو بھی معلوم نہیں ہوتے، لاہور کے لوگوں کو بھی علم نہیں ہوتا، ایران اور افغانستان کے لوگ ان سے لاعلم رہتے ہیں لیکن اگر یہی صورت حال کسی بھی طاقت ور قوم کے ساتھ ہوتا، مثال کے طور پر دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی یہودی مارا جاتا ہے تو پورا دنیا اس پر شور شرابہ شروع کر دیتا ہے، یہی بلوچستان میں جب کوئی چینی مارا جاتا ہے تو پوری گلوبل میڈیا اس پر شور شرابہ شروع کر دیتا ہے، اس پر گفتگو ہوتی ہے، نیوز اسٹوری بن جاتے ہیں، بلوچ جنگ پر دنیا بھر میں باتیں ہوتی ہیں لیکن آئے دن جس بے دردی سے پاکستان یہاں کے لوگوں کو شہید کر رہا ہے اس پر دنیا میں کسی کو بھی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انسانی حقوق صرف طاقت ور قوموں اور ریاست کے ہوتے ہیں اور وہی لوگ، وہی قومیں اور وہی ریاستوں کے لوگوں کی عزت، حیثیت اور انسانی حقوق ہو سکتے ہیں جو طاقت کے زمرے میں آئے، اور طاقت کے زمرے میں آنے کیلئے اسی قوم کے نوجوانوں، لوگوں، اداروں کو کام کرنا ہوگا کیونکہ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی الگ قوم کو کسی الگ ریاست نے آکر آزاد کیا ہو یا ان کے لوگوں کو طاقت ور بنایا ہو یا انہیں طاقت کے مقام پر لایا ہو، یہ تمام کام اور ذمہ داریاں انہی قوم کے لوگوں کے اوپر آتی ہیں جو کسی نہ کسی طرح اس جبر اور کمزوری کے شکار ہیں جس کی دنیا میں کوئی بھی حیثیت نہیں ہے، یعنی جب تک آپ طاقت ور نہیں بنیں گے، آپ کے دنیا میں کوئی بھی انسانی حقوق نہیں رہیں گے اور دنیا میں اپنے لوگوں کیلئے حقوق حاصل کرنے کیلئے قوم کو، اداروں کو مضبوط اور ایک طاقت ور قوم بننا ہوگا۔
گریٹ پاور پالیٹکس اور بلوچ قومی تحریک
بلوچ قومی تحریک اس وقت دنیا بھر کی طاقت ور تحریکوں کے اندر شمار نہیں ہوتی، ہم عام طور پر چھوٹے سے چھوٹے چیزوں پر خوش ہو جاتے ہیں، یا یہی سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ہم مکمل ہو چکے ہیں یا مکمل ہونے جا رہے ہیں، لیکن ہماری کمزوری کو دیکھنے کیلئے ہمیں اپنے ارد گرد کے ساتھیوں کو، سنگتوں کو، دوستوں اور ذمہ داروں اور عہدہ داروں کو دیکھنا چاہیے، انہیں دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا یہ لوگ دنیا بھر کے ان قوموں، تحریکوں، انسانوں اور طاقت ور ریاست اور قوموں کے مقابلے میں موجود ہیں، آیا آج ہماری قوم ٹیکنالوجی کے میدان میں اس مقام تک پہنچ چکا ہے جس مقام تک دنیا بھر کے دیگر قوم موجود ہیں، آیا انفارمیشن وارفئیر، ملٹری وارفئیر، تنظیم سازی، معاشی حوالے سے ہم، ہماری قوم اور تحریک اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ ہم دنیا کے مقابلے میں شامل ہو سکیں بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ آیا آج ہمارا قومی شعور کس مقام تک ہے؟ ہمارے ارد گرد جتنی جنگیں ہو رہی ہیں، جتنے بدلاؤ آ رہے ہیں، جس حد تک تبدلیاں رونما ہو رہی ہیں، ہمارے عام لوگ، عام شہری ان سے کس حد تک آشنا ہیں؟ کس حد تک ان سے تعلق رکھتے ہیں، ہماری قومی شعور کا مقام کیا ہے ؟ یہی چیزیں ہماری طاقت کو واضح کر دیتی ہیں، یہی چیزیں بتاتی ہیں کہ ہم بطور تحریک، بطور تنظیم، بطور قوم، بطور تعلیم یافتہ طبقہ کس مقام پر کھڑے ہیں؟ آج بلوچ کا ایک انجینئر بنیادی انجئینرنگ کے عمل سے آشنا نہیں ہے، آج کا بلوچ نوجوان تعلیم کو صرف ڈگری تک محدود کرنا سمجھتا ہے، جبکہ تحریک سے جڑے سنگت اور ساتھی تعلیم کو تحریک کا حصہ ہی نہیں سمجھتے یا اس کو انتہائی کم سمجھتے ہیں؟ آج طاقت سے پہلے ہمیں اس بنیادی فلسفے پر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیوں آج اس مقام پر کھڑے ہیں؟ ہم کیوں آج بطور قوم اس مقام تک بھی نہیں پہنچے ہیں کہ پنجابی جیسے ایک کمزور دشمن کا بھی مقابلہ کر سکے۔ گوکہ عام طور پر ہم اپنی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر یپش کرنے کو بہترین طریقہ سمجھتے ہیں اور اسی پر توجہ دیتے ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہی آگے بڑھنا ہوگا، بلوچ نوجوان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہماری زندگی دشمن کے سامنے کیڑے مکوڑے جیسا ہے، روزانہ ہماری لاشیں گرا دی جاتی ہے اور اس پر کوئی بھی شور نہیں ہوتا، کوئی آواز نہیں اٹھایا جاتا، اس پر کہیں پر بھی غم و غصے کا اظہار نہیں ہوتا، ہمارے سفارت کاروں کو سمجھنا ہوگا کہ ہمیں ویکٹم کارڈ کھیلنے کے بجائے اپنی طاقت بڑھانے پر کام کرنا چاہیے، دنیا میں کوئی بھی ریاست یا قوم ویکٹم کارڈ کھیلتے ہوئے آزاد نہیں ہوا ہے بلکہ ہم ہمارے لوگوں کو طاقت کے بجائے مظلومیت سیکھا رہے ہیں کہ مظلوم کس طرح بننا ہے، کس طرح دنیا کے سامنے بطور مظلوم اور بےبس اپنی شناخت بتانا ہے، گوکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج ہم ایک مظلومیت کی زندگی گزار رہے ہیں، ہمارے اوپر ایک قابض اور طاقت ور ریاست موجود ہے لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی شناخت اور ذہنی طور پر خود کو مظلوم سمجھے اور مظلومیت کی زندگی گزارے بلکہ ہمیں ایک طاقت ور کی زندگی گزارنے پر تگ و دو کرنا چاہیے، ہمیں دنیا کے ان قوموں سے سیکھنا چاہیے کہ آج بطور قوم وہ کس طرح اس مقام تک پہنچے ہیں کہ دنیا میں ان کی عزت کی جاتی ہے۔
آج دنیا میں بہترین سائنسٹسٹ، بہترین تجزیہ نگار، بہترین انفارمیشن وارفئیر، منظم جنگ اور منظم دفاع، منظم قومی ادارے ہی معنی رکھتے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو ایک طاقت ور انسان کی مائنڈ سیٹ لینی ہوگی، ہمارے نوجوانوں کو محنت کرنے کی زندگی کو اپنانا ہوگی جو دنیا بھر میں اپنائی جاتی ہے، سخت سے سخت محنت، تعلیم، اپنے لوگوں پر کام، بہترین طاقت ور سوچ کے ساتھ ہمیں اپنے نوجوانوں کی پرورش کرنا چاہیے تاکہ وہ ایسے نوجوان بنے جو دشمن کو جواب دینا سیکھے، جو دشمن کا ہر مقام پر مقابلہ کرنا سیکھے، جو دشمن کو ہر مقام پر شکست دینے کی آرٹ سے آگاہ ہو، جو دشمن کے طاقت کے سامنے جھکنے اور صرف خود کو مظلوم سمجھنے کے بجائے دشمن کے خلاف عوامی ردعمل سے لیکر فوجی ردعمل دینے کی صلاحیت پیدا کرے، دنیا میں جیتنے کے اصول یہی ہیں کہ آپ کتنا طاقت ور ہیں، جتنا زیادہ طاقت ور ہونگے اتنا ہی زیادہ دنیا میں آپ کو انسان سمجھا جائے گا، اور یہ صرف ایک فرد کے طاقت ور ہونے کی بات نہیں ہے، صرف ایک سرکل کے طاقت ور ہونے کی بات نہیں ہے بلکہ ایک قوم کے طاقت ور ہونے کی بات ہے اور جب تک ہم بطور قوم ایک طاقت ور اور منظم شکل اختیار نہیں کرینگے، انفرادی طور پر تنظیم ہوں یا شخصیات، ان کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہو سکتی جب تک ایک منظم، مضبوط اور طاقت ور قوم کا قیام عمل میں نہ لایا جائے اور ایک طاقت ور قوم کا قیام عمل میں لانے کیلئے طاقت کے فسلفے کو اور حقیقت کو ہمیں اپنانا چاہیے۔ سیاسی سرکل سے لیکر لٹریچر سے جنگی مقام تک، سفارتی سطح سے لیکر ہر عوامی محاذ تک، بلوچ قوم کو ہر محاذ پر طاقت کا مظاہرہ دکھانا چاہیے، اور جب تک ہم بطور طاقت دشمن کا مقابلہ نہیں کرینگے، دشمن نہیں ڈرے گا، اور جب تک دشمن نہیں ڈرے گا وہ کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹے گا، پاکستان ہو یا کوئی بھی قابض ریاست، وہ مظلومیت کی بنیاد پر کبھی بھی اپنے ریاست کو توڑنے پر آمدہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ بد سے بدتر ہوتا جائے گا لیکن اپنے ریاست کی سالمیت کیلئے آخری حد تک لڑے گا اور اس کو شکست دینے کیلئے ایک عظیم، طاقت ور، اور منظم قوم کا قیام عمل میں لانا انتہائی ضروری ہے۔
اس وقت تک دنیا میں ہماری کوئی حیثیت نہیں رہے گی جب تک ہم بطور ویکٹم دنیا میں اپنی شناخت اور ذہنی طور پر خود کو مظلوم سمجھتے رہیں گے بلکہ ہمیں ایک طاقت ور اور منظم قوم کے قیام میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ چاہے وہ کوئی نوجوان جو کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے اسے، بدترین محنت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہترین سبجیکٹ اور عالمی ضرورتوں کے مطابق تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلوبل سطح پر خود کو ثابت کرنا چاہیے، آج گلوبلائزیشن کی وجہ سے دنیا بھر میں کوئی بھی ایسا ادارہ نہیں جہاں ٹیلینٹ اور صلاحیت کو نہ نوازا جائے، ہر جگہ ٹیلیٹ اور صلاحیت کو نوازا جاتا ہے، اسی طرح سیاسی سرکلز میں بہترین اور عظیم قوموں کو پڑھ کر ان کے عادات کو اپنا کر انہی کو اپنے مباحثوں کا موضوع بنانا چاہیے، جنگی سطح پر ایک عالمی معیار کے فوج، جو منظم اور طاقت ور ہو، اس کے قیام کیلئے شب و روز محنت کرنا چاہیے۔ جب تک ہم ہر سطح پر ایک طاقت ور قوم کی حیثیت سے خود کو اور دنیا کے سامنے اپنی شناخت نہیں کراتے ہیں تب تک ہمارے حیثیت یہی رہے گی جو آج ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔