کوئٹہ: غنی بلوچ کو بازیاب کیا جائے، تاکہ ہم ناکردہ گناہ کی اذیت سے نکل سکیں۔ ہمشیرہ جبری لاپتہ غنی بلوچ

61

پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ غنی بلوچ کی ہمشیرہ بی بی سلطانہ نے بدھ کے روز کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ
ہم ایک بار پھر اپ کی توسط سے عدالت عظمی، عدالت عالیہ اور تمام ریاستی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے فیملی ممبر غنی بلوچ جنکی جبری گم شدگی کو سترہ روز ہورہے ہیں، کو فوری طور پر بازیاب کیا جائے۔

انہوں نے کہاکہ ہمیں اب تک ان کے حوالے سے کسی قسم کی اگاہی حاصل نہیں ہیں۔ ہمیں یہ بھی علم نہیں. کہ انکو کس الزام کے تحت جبری گم شدگی کا شکار بنایا گیا ہے۔اور اس طرح ایک ذمہ دار، ریسرچ سکالر کو بندوق کی نوک پر اغواء کرکے پورے خاندان کو اجتماعی سزا دی جارہی ہے۔ہمارے چھوٹے اور معصوم بچوں کو بھی اجتماعی سزا دی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ایم فل سکالر ، رائیٹراور زوار ادارے کے پبلشر
عبدالغنی بلوچ کی فیملی کی حیثیت سے آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ اس عید سعید کے بابرکت اور خوشیوں کے لمحات ہمارے لیئے ایک ایسی اذیت بنے رہے جنکو بیان کرنے کے لیئے الفاظ نہیں ملتے۔ پوری دنیا بشمول اہل کوئٹہ نے عید کو انجوائے کیا۔ لیکن ھم۔نے ایک ایک پل قیامت کا گزارا ہے۔ کیا یہ ایک المیہ نہیں ایک بلوچ بہن اپنی ہی سرزمین پر اپنے بچوں کے ساتھ خوشیوں سے کوسوں دور آنکھوں میں آنسووں کا سیلاب لیکر کھڑی ہو۔ میرے بھائ کو ٢۵ مئی کی رات کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے خضدار کے مقام سے ایف سی نے اسے پکڑ کر جبری گمشدگی کا شکار بنا دیا۔

انہوں نے کہاکہ میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ آخر میرے بھائی کا قصور کیا تھا۔ صرف یہی کہ وہ علم دوست کتاب دوست تھا۔اس نے ” زوار ” نامی پبلشنگ کی بنیاد رکھی، اب بھی وہ کتابوں کی پبلشنگ کے لیے کراچی جارہے تھے کہ ان کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا، جسکا تصور کسی بھی انسان کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا ،کیا یہ بلوچستان ہائیکورٹ کی عمارت ہماری نہیں ہے، ہم اس کے منصب پر بیٹھے معزز جج صاحبان سے انصاف کی توقع نہیں کر سکتے۔

انہوں نے کہاکہ ہم غنی بلوچ کے لواحقین کی حیثیت سے پہلی بار ان سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں،سرکار ہمیشہ سے کہتی رہی ہے کہ بلوچ پڑھتا نہیں، بلوچ کو تعلیم سے رغبت ہی نہیں، لیکن اب کیا ہورہا ہے میں پاکستان کے تمام اختیار داروں سے ایک معصومانہ سوال اور اپیل کر نا چاہتی ہوں کہ جب بلوچ ایم فل سکالر بنتے ہیں پی ایچ ڈی کرتے ہیں، تب انکو اٹھا کر غائب کیا جاتا ہے،چیف جسٹس آف پاکستان ہمیں ہمارے معصومانہ سوال کا جواب دیجیئے۔

مزید کہاکہ اگر ریاست کو بلوچ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ تو پھر تعلیم کی بجائے وہ کونسی راہ اختیار کریں کہ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کر سکیں،ہمیں آج کئی روز گزر جانے کے باوجود غنی بلوچ کے بارے میں نہیں بتایا جارہا کہ وہ کس حال میں ہیں؟ انکی صحت کیسی ہے؟ ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جارہا ہے؟ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ وہ ہمارے غم گسار بھائی ہیں، بوڑھا باپ جو نوشکے سے نڈھال ہوکر آیا ہے،وہ وہاں پر ڈاک میں خشکابہ زمینوں پر بارش ہونے کی صورت میں فصل کاشت کرتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ غنی بلوچ کی جبری گمشدگی نے ہمارے پورے خاندان کو اجتماعی سزا کا حقدار بنا دیا گیا ہے، یہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال ہے، اب بھی اس ظالمانہ عمل کو روکا نہ گیا، تو جو ہوگا اسکے بارے میں صرف تصور کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر غنی بلوچ کو بازیاب کیا جائے، تاکہ ہم ناکردہ گناہ کی اذیت سے نکل سکیں، اس کے لیئے ہم حکومت، انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کو ۴۸ ( اڑتالیس گھنٹوں ) کی ڈیڈ لائن دیتے ہیں، کہ وہ غنی بلوچ کو بازیاب کریں، اگر خدانخواستہ ایسا نہیں ہوتا تو ڈیڈ لائن گزر جانے کے بعد ہم کوئی بھی راست اور انتہائی اقدام اٹھا سکتے ہیں، جسکی تمام تر ذمہ داری حکومت وقت اور انتظامیہ پر عاید ہوگی، کیونکہ غنی بلوچ کی جبری گم شدگی کے بعد ہماری اپنی زندگیاں بھی ہم پر بوجھ بن گئی ہیں۔