ذرائع کے مطابق بلوچستان پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی ( سی ٹی ڈی ) 5 دن گزرنے کے باوجود بارکھان میں پاکستانی فوج کے ساتھ ہوئی جھڑپ میں شہید ہونے والے سرمچاروں کی لاشیں لواحقین کی تحویل میں دینے سے انکاری ہے۔
لواحقین نے انتظامیہ کے رویے سے مایوس ہوکر آج ( بدھ ) مجسٹریٹ درخواست دی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ قانون اور روایات کے مطابق لاشیں لواحقین کی سپرد کی جائیں تاکہ ان کی تدفین کی جاسکے۔
یاد رہے کہ بارکھان کے علاقے رکنی میں 6 جون کو پاکستانی فوج اور ڈیتھ اسکواڈز کے ساتھ ہونے والی جھڑپ میں مصطفیٰ نور (تسپ، پنجگور)، سمیع اللہ (ملائی بازار، تربت)، رسان قادر (لباچ ڈنسر، آواران) اور شاہ زیب (گونی گریشگ) جانبحق ہوئے تھے۔ ان کی لاشیں واقعے کے بعد رکنی سے سول ہسپتال شال منتقل کی گئی تھیں۔
لواحقین نے کہاکہ قانونی اور اخلاقی طور پر ریاست اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی تحویل میں موجود لاشوں کی درست شناخت اور لواحقین کی تصدیق کے بعد لاشیں خاندان کے سپرد کرے۔
تاہم حالیہ کچھ عرصے میں پاکستانی فوج نے بلوچ سرمچاروں کی لاشوں کی لواحقین کو حوالگی کو بھی ایک بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔ نہ صرف شہداء کی لاشوں کی بیحرمتی کا سلسلہ شروع کیا گیا بلکہ شہید غلام محمد ، شہید بانک کریمہ جیسی شخصیات سمیت بلوچ شہداء کی قبروں کی بھی توہین کی جاتی ہے۔ ان کی تعمیر اور ان کی قبروں پر جانے پر غیراعلانیہ پابندی عائد ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج بلوچ قومی تحریک کو حاصل بلوچ عوام کی حمایت سے خائف ہے کیونکہ بلوچ شہداء کو قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا جاتا ہے۔ پاکستانی فوج جانتی ہے کہ شہداء کی قبریں بلوچستان میں پاکستانی قبضے کے خلاف واضح نشاں ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں شہداء کی لاشوں کو لواحقین کے حوالے نہ کرنے کی یہ کوئی پہلی واردات نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہیں۔
خیال رہے ملک جنیوا کنونشنز کے مطابق، جاں بحق افراد کے ساتھ سلوک احترام اور وقار کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ متحارب فریقین پر لازم ہے کہ وہ مرنے والوں کی لاشیں جلد از جلد ان کے اہلِ خانہ کے حوالے کریں۔ لاشوں کو چھپانا یا روک کر رکھنا بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے۔