چراگ روکیں
تحریر: واھگ بزدار
دی بلوچستان پوسٹ
انسانی کردار زمین و آسمان میں اپنا ایک الگ وجود رکھتا ہے زندگی کرداروں کی محتاج ہے کردار ہی نہ ہو تو زندگی کا وجود میری نظر میں کائنات میں ہونے کے باوجود بھی ناپید ہوگی مخلصانہ کردار دھرتی کو سنوارتے ہیں قوموں کی زندگیوں کو سنوارتے ہیں اور ایسے عظیم لوگ اپنے کردار خاموشی سے ایسے مخلصی کے ساتھ ادا کرتے ہیں جن کا فیصلہ قوم ان کرداروں کو دیکھ کر زندگی کرتی ہے جو قوم کو قومی اداروں کو قومی سیاست کو قومی بقا کے عمل کو ایک ایسے مخلصانہ انذار میں نبھا کر چلے جاتے ہیں کہ وہ خود کو قربان کر کے زندگی اور کرداروں کو زیب دار بناتے ہیں جو کہ قومی بقا اور فنا کے شعوری زند کے وجود کا فیصلہ کر تی ہے ۔
دنیا کے مہذب و شعوری سماج میں عظیم الشان کرداروں کے تذکرے آپ کو ایک خوشی، اپنا پن کے ساتھ دیکھنے، سننے کو ملے ہونگے شکر خدا ہے کہ بلوچ سرزمین نے کئی ہزاروں سالوں تک ایسے کردار پیدا کیئے ہیں اور حالیہ بلوچ عوامی تحریک و قومی سطح پر مزاحمت اس کی نمایاں مثال ہے یہاں کسی ایک آرٹیکل میں یا فرد کے نام کے ایک دو حروف کہہ دینے سے لکھنے سے کوئی بھی ان عظیم کرداروں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکے گا ان شخصیات نے اپنے کرداروں کو علمی جامہ پہنا کر اپنے جان و نسلوں کی قربانی دے کر کرداروں کے ساتھ انصاف کیا ہے کردار شخصیت کی محتاج ہوتی ہے کردار ویسے تو ہر کوئی فردی طور ادا کرتا ہے لیکن جب ایک قوم یا معاشرے بدترین کرداروں کے ہاتھوں سماج کو دیمک کی طرح چاٹ رہی تو وہاں ان بدترین کرداروں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے قومی ادارے قائم کیے جاتے ہیں یہی ادارے ادارہ جاتی بنیادوں پر افرادی رویوں کی نشوونما کر کے ان کو اجتماعی عمل میں تبدیل کر دیتے ہیں جو روشن مستقبل کی نوید ہوتی ہے۔
بلوچ تحریک کے حوالے سے سینکڑوں ایسے شخصیت کے کرداروں کو سننے، دیکھنے اور ساتھ کئی ایسے مواقع پر ایک ساتھ گزارنے کا موقع مل ہے جن کے کرداروں کو اپنے لوگوں تک پہنچانا لکھنا، میرے خیال میں جب ماں اپنے بچے یا بچوں کو لولی دے رہی ہو تو ان کرداروں کے کردار کو لولی کے الفاظ کے صورت میں ادا کرکے وہ ان کرداروں کو اپنے نئی نسل تک منتقل کرکے اپنی قومی و اخلاقی دمہداری کو پورا کر سکیں گے بلوچ تحریک کو اپنی خون و پیسنے سے ہر اس شخص نے ایسے کردار بخشے ہیں جس نے بلوچ قومی تحریک کو ایک روشن باب دیا ہے جن پر مجھ جیسے نااہل و بے کردار شخص بھلا کیا لکھ سکیں گا لیکن پھر بھی ایک چنگاری، ایک تھڑپ، جذبات ایک احساس، کچھ نہ کچھ کہنے و لکھوانے و بولنے کی کوشش کروا رہا ہے۔۔۔
عاقل سے ملاقات انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ہوئی جہاں وہ ایم فل پولٹیکل سائنس میں کر رہے تھے اور میرا بی ایس میں پہلا سمسٹر تھا مُجھے سمجھ نہیں آرہا تھا اسلام آباد میرے لئے انجان تھا میں ایک عجیب سی نفسیاتی کیفیت میں مبتلا تھا تو ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے نہایت ہی مہربانہ انداز میں مجھے سے حال احوال کیا اور کونسل کا تعارف کروایا اور کہا کہ مجھے کسی طرح کا بھی مسئلہ ہو تو ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ آپ دوستوں کے مسائل کو حل کر سکیں، چائے پینے کے بعد وہ اپنے کلاسسز لینے چلے گئے وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہی اور چند ہی عرصے میں وہ مجھ سے کافی قریب ہونے لگیں۔
وہ اسلام آباد میں میرے لئے پہلے شخص تھے جنہوں نے مجھے قوم و قومی تحریک کے بارے میں بتایا اور مختلف دوستوں سے آشنا کروایا۔ اس وقت سرکار کی جانب سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں کو مختلف سکالرشپ دیئے جا رہے تھے جن کا مقصد بلوچوں کو قومی تحریک سے دور کر کے نوکری چاکری کے جھانسے میں ڈال کر گمراہ کر نے کی ہر ممکن کوشش تھی لیکن وہاں موجود چند شعوری دوستوں نے دشمن کے اس عمل کو بھانپ لیا اور ہر بلوچ نوجوان جو ان کے پاس موجود تھے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ ان کے تربیت کریں جن میں عاقل کو میں نے ہمیشہ ان دوستوں میں دیکھا تھا جو اسلام آباد میں بلوچ اسٹوڈنٹس کو منظم کرنے و بلوچ اسٹوڈنٹس کی ذہنی تربیت کرنے کی کوششیں کرتے تھے ۔ انہوں نے نجانے کتنے ہی اپنے دوستوں کو دشمن کے قلی کیمپوں میں ریاستی جبر کے بعد ان کے مسخ شدہ لاشوں کو دیکھا جس نے بلوچ سماج میں ہر اس زی شعور انسان کو سوچنے و عمل کرنے پر مجبور کیا۔
یونیورسٹی کے دوران عاقل نے مجھے غلامی و آزادی کے حقیقی معنوں سے آشنا کروایا مجھے دنیا میں ہونے والی غلام اقوام کی تاریخ اور ان کے مزاحمت و ان قبضہ گیر کے قبضے گیریت کے بارے میں بتایا کہ قبضہ گیریت کیا ہے کس طرح اقوام کے افراد اور ان کے ذہنوں پر قبضہ کیا جاتا ہے۔
ان کی ہر وقت یہی کوشش ہوتی کہ دوست بیٹھیں اور سیاسی حوالے سے خود کو تیار کر کے آنے والے دوستوں کے سیاسی حوالے سے ذہین سازی کریں۔ ایک دن وہ مجھے ہاسٹل کی چھت پر لے گئے اور مجھ سے کہا کہ آپ تنظیم کے ذمہ دار ہو لہٰذا یہاں دوست کافی زیادہ وقت گزاری و کھیلنے میں گزار رہے ہیں لہٰذا ان پر توجہ دینے کی کوشش کرے اور چیزوں کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔ بقول عاقل کے یہاں دوست من گھڑت ادب کا مطالعہ کر رہے جس کے پڑھنے و دوستوں کے درمیان سرکل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، ہمیں اپنی سرکلز کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے جس کے بعد سے سرکلز کے ٹاپک کو تبدیل کیا گیا عنوان ہر وقت بلوچ، غلامی، آزادی اور قومی تحریک میں ہونے والے مسائل پر بات ہوتی تھی دنیا میں ہونے والی غلام اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جانے لگا اور ان کا موازنہ بلوچ تحریک سے کرنے کی کوششیں کی گئی غلامی پر دنیا جہاں کا ادب پڑھنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا یہ کار خیر بھی میرے نظر میں شہید شہداد، احسان اور عاقل کو جاتا ہے۔
عاقل جو ایم فل کی ڈگری کرنے کے بعد اپنے ڈاکومنٹس کو ایک فائل میں بند کر کے کسی چالیس و پچاس ہزار کی نوکری کے پیچھے نہیں گیا بلکہ انہوں نے قومی تحریک میں اپنا کردار ادا کرنے کی ٹھان لی پھر وہاں سے پروفیسر چراگ بنے جنہوں نے جو کچھ دشمن اور اس کے اداروں سے سیکھا انہی صلاحیتوں کو قومی تحریک میں استعمال کیا جس سے بلوچ قومی تحریک کے فرزندان مستفید ہوئے۔ پروفیسر چراگ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بی ایس او آزاد سے اس وقت کیا جب بی ایس او آزاد کے چیئرمین بشیر زیب تھے اپنی سیاسی حلقوں میں پروفیسر نے بلوچ قومی تحریک کے حوالے سے کافی تگ و دو کی بلآخر مسلح دستے میں شامل ہوئے۔
بولان کی وادیوں سے اپنی مسلح جہدوجہد کا آغاز کرنے والے پروفیسر چراگ نے اپنی بساط کے مطابق ہر وقت قومی جہد کاروں کی جنگی و سیاسی حوالے سے تربیت کی وہ ہمیشہ دوستوں کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے وہ ہر اس جہد کار سے کہتے کہ اس تحریک کو ایک جدید طرز میں ڈھال کر ہمیں آگے بڑھنا ہے ہمیں روایتی طرزِ و طریقہ سے نکل کر جنگ کو ایک ایسی شکل دینی ہے جو دشمن کے ہر ہتھکنڈہ کو مکمل نیست و نابود کر ڈالے تب ہی جا کر ہم اس سرزمین کو پنجابی چنگل سے آزاد کرا سکتے ہیں۔ پروفیسر چراگ کو میں نے قومی تحریک کے حوالے سے نہایت ہی مخلص پایا۔
پروفیسر ڈسپلن کے نہایت ہی پابند تھے وہ جو کام کرنے کی ذمے داری لیتے تھے اس کو مکمل کرنے کے بعد اطمینان سے بیٹھتے ورنہ وہ بے چین رہتے تھے اور تمام ساتھیوں کو ہر وقت ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتے، جب کوئی ڈسپلن کی خلاف عمل کرتا تو ان کو جسمانی سزا کی بجائے ان کو تلقین کرتے اور مہربان انداز میں سمجھایا کرتے تھے وہ ہمیشہ بلوچ تحریک میں اٹھنے والے مسائل کا سامنا اور حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے جہاں اگر کوئی ذمہ دار بھی سستی کا مظاہرہ کرتا تو ان پر تنقید کرتے تھے، وہ تحریک و اوتاکوں میں سستی و کاہلی کے عمل کو ہمہ وقت نشانہ بناتے رہے۔ چراگ قومی تحریک میں ایک بلوچ گوریلا کی جسمانی طور پر مکمل چست و چاق ہونے کے بارے میں ہمیشہ کہتے کہ ہم بلوچ قوم کے محافظ ہیں اور ایک محافظ کو ہر لمحہ ہر طرح کے حالات کے لئے خود کو جسمانی و ذہنی طور پر مضبوط و تیار رکھنا چاہیے وہ دوستوں کو سیگریٹ و دوسری نشہ آور چیزوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے۔ جب کبھی کبھار کوئی دوست اچانک کسی موقع پر سگریٹ پیتا تو وہ ان کی حوصلہ شکنی کرتے تاکہ اس عمل کو تحریک و گوریلا فائٹرز سے دور رکھ سکیں۔
جنگ کی بھی اپنی عجیب فطرت ہے جو نہ جانے جنگولوں کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے چراگ صاحب نے میدان جنگ سے شاعری کا بھی آغاز کیا انہوں نے اپنے شہیدوں اور مختلف واقعات پر کئی شعر لکھیں، پروفیسر شطرنج کے بہت شوقین اور اچھے کھلاڑی تھے۔ چراگ بولان میں مختلف اوتاکوں میں ایک فوجی ٹرینر بھی رہے تھے جو آنے والے نئے دوستوں کو ٹریننگ دیتے تھے اور مختلف محاذوں پر ریکروٹمنٹ سیل کا بھی حصہ رہے اور کئی معرکوں میں شامل ہو کر دشمن پر قہر بن کے برسے، وہ دوستوں کو ہمیشہ سوال کرنے کا مشورہ دیتے کہ سوالات کرنے سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ ہمیشہ سوالات کرنے چاہیے اور ہمیشہ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے چاہیے ۔
پروفیسر خود احتسابی کے من و گر تھے بقول ان کے ہمیں اپنی خامیوں کو دوسرے لوگوں و بیرونی چیزوں سے نہیں جوڑنا چاہیے ہم بیرونی عناصر و عوامل پر بغیر سوچے سمجھے ان خامیوں کا ملبہ ڈال دیتے ہیں حالانکہ ان کا تعلق ہم سے ہے ہماری کمزوریوں سے ہے لیکن جب تک ہم خود انفرادی حوالے سے ان عوامل کے بارے میں خود احتسابی نہیں کرے گے تو اس وقت تک ہر کام و منصوبے کو عملی جامہ پہنانا بہت ہی مشکل ہوگا لہٰذا خود کی کمزوریوں و کوتاہیوں سے بری الذمہ قرار دے کر ہم خود کو صرف تسلی دے تو دیں سکتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ عمل فرد سمیت تحریکوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
پروفیسر چراگ قومی تحریک میں یکجہتی کے قائل تھے وہ ہر وقت بلوچ مسلح تنظیموں کے یک جگہ ہونے کے بابت سوچتے اور تمام اوتاکوں کے ساتھیوں کے ساتھ ان چیزوں پر بحث کرتے تھے کہ ہم بلوچ قوم کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ہمارا مقصد ایک ہے ہمارا نظریہ ایک ہے تو کیوں نا ہم خود یک جگہ ہو کر دشمن کو اس وطن سے ایک ساتھ بیدخل کریں۔ بقول شہید چراگ کہ ہمیں چھوٹے چھوٹے مسائل سے ہٹ کر اس جہدوجہد کو ایک چھتری کے سائے تلے ڈھالنا ہے تاکہ دشمن بھی اس چیز سے بھی باخبر ہو کہ ہماری جدوجہد ایک ہے وہ “براس” کو مضبوط کرنے اور اس کو ایک جدید طرز عمل پر ڈھالنے پر زور دیتے اور اس حوالے سے خود میں نے ان کو دوستوں کی نشوونما کرتے چراگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ تحریک میں پارٹی بازی کے سخت مخالف تھے وہ تمام تنظیموں کے تنظیمی فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اگر ان اس کسی طریقے کار پر اختلاف ہوتا تو نہایت سنجیدگی و دلیل کے ساتھ اپنی رائے پیش کرتے تھے۔
پروفیسر چراگ عوامی مسائل پر توجہ دیتے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ عوام ہی ہماری اولین ترجیح ہے اگر عوامی مسائل کو حل نہ کیا جائے تو وہ تحریک پر اعتماد کھو دیں گے جس کے اثرات تحریک پر مرتب ہونگے بقول پروفیسر کے یہ جنگ عوامی جنگ ہے اور یہ عوام ہماری ہی ہے ہم نے یہ بندوق انہی کی حفاظت کے لیے اٹھائی ہے۔
ایک دن گشت کے دوران ہماری ملاقات علاقائی لوگوں سے ہوا تو ان میں سے ایک شخص کو درختوں کی کٹائی کے حوالے سے میں نے منع کیا تھا لیکن بعد ازاں وہ درختوں کو کاٹ رہا تھا میں نے اس شخص کو سخت لہجے میں سمجھانے کی کوشش کی تو پروفیسر نے مجھے نہایت ہی مہربان انداز میں سمجھایا کہ مجھے ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا میں نے پھر اس عمل کے لئے پروفیسر اور اس شخص سے معافی طلب کی۔
پروفیسر چراگ اخلاقی اقدار کے مالک تھے وہ اپنی اخلاق کی وجہ سے تمام دوستوں کے دل میں جگہ کر لیتے آج بھی چراگ کوہ بولان سے لے کر کوہ سلیمان کے تمام اوتاکوں میں اپنی اخلاقی برتری کے باعث دوستوں کے لئے ایک مثال بن گئے ہیں چراگ کو میں نے ذاتی طور ایک چھوٹے عمر کے شخص سے لے کر ادھیڑ عمر شخص کے ساتھ اخلاقی طور پر پیش آتے ہوئے دیکھا حتیٰ کہ وہ اپنے مخالفین سے اخلاقی طور پر پیش آتے تھے۔ چراگ اپنے کردار اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے پروفیسر بنے وہ کسی کالج یا یونیورسٹی کے پروفیسر نہیں بنے جہاں پروفیسر بننے کا معیار چند ریاضی کے نمبروں سے ہو وہ بی ایل اے اور قوم کے غیور دوستوں کے پروفیسر بنے جہاں کسی لقب یا اعزاز کو اپنے نام کرنے کے لئے لاکھوں تکالیف سے گزر کر خود کو ثابت قدم کرنا پڑتا ہے اور چراگ نے وہ کر دکھایا۔
میں نے اپنے دس سالہ تعلق اور قربت میں چراگ کو قومی تحریک کے حوالے سے کافی زیادہ حساس پایا وہ تحریک میں ہونے والی چھوٹے چھوٹے اونچ نیچ سے اچھی طرح آگاہ تھے لیکن میں نے کبھی بھی ان کو مایوس نہیں پایا اور وہ خود ان کمی کوتائیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے تاکہ آنے والے دوستوں کو ان مسائل کی وجہ سے مشکلات کا سامنا نہ ہو اور اسی روشن فکر سوچ کو پروان چڑھاتے ہوئے وہ کوہ بولان سے کوہ ماران ( کاہان) اور کوہ سلیمان تک لے گئے اور بلا آخر کوہ سلیمان بارکھان میں 9 اپریل کو دشمن کے حملے میں تین دوستوں شہید محسن عرف درا شہید رضا عرف کبیر کے ہمراہ شہادت کے عظیم مرتبت کو حاصل کیا، چراگ نے خود کو جلا کرقومی تحریک کو روشن کیا۔
آں مونج شکاریں لوگانی استار چہ ڈیھ رکست بوت
منی درد چہ کوہاں مستر بوت منی یار چہ ڈیھ رکست بوت
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔