پہاڑوں کا چراغ امان جان
تحریر: نور زمان
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ میں انسان اپنے آپ کو امر کرتے رہیں گے۔ وہی دنیا میں قدم رکھتا ہے، وہی انسان کی وجود پیدا ہوتا ہے۔ پھر لوگ جانتے ہیں وہ کون تھا اور کیا کردار تھا۔ انہی کرداروں میں ایک امان جان تھا۔ جب اس نے اپنے آپ کو زمین کے لیے قربان کیا، وہ بھی تاریخ کا رسمی حصہ بنا۔
آج سے نو سال پہلے دشت سیاہجی کے پہاڑوں میں فورسز نے ایک وسیع پیمانے پر آپریشن شروع کیا۔ مئی کا مہینہ تھا۔ دشت کے وہ تپتے چٹانوں میں پیوست مسلسل آپریشن میں ہر طرف فورسز کی بمبار ہیلی کاپٹروں کی گردش اور محاذ میں امان جان جیسے کئی نوجوان پہاڑوں کے دامن میں اپنے آپ کو پنہا دیتے ہوئے پنجابی فوج کے مقابلہ کر رہے تھے۔
یہ آپریشن سیاہجی کے کئی حصوں میں جاری تھا۔ ایک طرف فوج، دوسری طرف گرم تپتی چٹانوں سے گزرتی ہوا کہ بلوچستان کے مکران ڈویژن میں مئی کے مہینے میں ہمیشہ سبز درختوں کو اپنی لپیٹ میں لیکر خشک کر دیتی ہے۔
وہی امان جان اپنے ہم محاذوں کے ساتھ مسلسل تپش، دھوپ اور فورسز کے مقابلے میں کمربستہ تھا۔ اس لیے تاریخ ایسے سپوتوں کو اپنے سینے میں لگا کر آغوش میں پناہ دیتی ہے۔
یہ واقعہ 2016 مئی کے مہینے کی ہے جس میں دو سرمچار اس آپریشن میں شہید ہوئے تھے۔ اور دھوپ و گرمی بلوچ ماؤں کی دعا اپنے سپوتوں کے نیک دعاؤں کے لیے خدا کو دست بستہ تھی کہ اے اللہ ہمارے پہاڑوں میں موجود تمام سپوتوں کو اپنی امان میں رکھیں۔ ان میں ایک ماں شاید امان جان کی ماں تھی کہ وہ بھی اپنے سپوت کے لیے دعا گو تھی۔
امان جان آپ تاریخ کا وہ حصہ بن گئے کہ ہمیشہ سنہرے لفظوں میں یاد کیا جاتے ہیں۔ آپ سرخ روح، آپ شب چراغوں کے وہ روشن راستہ بن گئے جہاں اندھیرے کے خاموشیوں کی راہ ہو وہی آپ کی چراغ روشن ہوتی ہے۔
12 اور 13 جون کی درمیانی رات تھی جب دوستوں نے میسج کیا کہ امان جان زخمی ہے اور دشمن کے بچائے گئے بارودی سرنگ کے دھماکے میں وہ شدید زخمی ہے۔ کچھ دیر بعد دوبارہ میسج آیا کہ امان جان ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے ہیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک نوجوان اپنی زندگی کا کچھ حصہ زمین کے لیے وقف کردیتا ہے اور زمین ہمیشہ ان کو اپنی سینے پر جگہ دیتی ہے۔
امان جان تاریخ کا حصہ بن گئے لیکن ان کا شعور پہاڑوں کی طرح بلند اور حوصلہ مند تھا۔ ہمیشہ مسکراہٹوں کے ساتھ ایک دوسرے سے ملاقات اور خوش مزاج انسانوں میں سے ایک تھے۔
یہ رات دردناک تھی جب بالی نے میسج کیا کہ آپ اس دنیا میں نہیں ہیں اور آپ شہید ہو گئے ہیں۔ مجھے بے یقینی نے اپنی طرف کھینچا لیکن آخر مجھے یقین کرنا پڑا کہ آپ 13 تاریخ کی رات امر ہو گئے ہیں اور وہ گاؤں کی طرف لوٹ رہے جہاں آپ نے ایک شرط رکھا تھا، واپسی دو الفاظ پر ہے: ایک آزادی، دوسری شہادت۔ لیکن آپ شہادت تک پہنچ گئے اور اپنا نام دنیا کی تاریخ کے صفوں پر نقش کرگئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔