بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ضلع آواران کے مخدوش صورتحال پر ایک تفصیلی رپورٹ جاری کیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے علاقے آواران میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کا ایک تسلسل جاری رکھا ہوا ہے۔ صرف رواں سال میں اس علاقے کے حد سے زیادہ عسکری قبضے کے باعث جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں ٹارگٹ کلنگز، اور حراستی تشدد جیسے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ان مظالم کا شکار بننے والوں میں عام شہری، طلبہ، سرکاری ملازمین اور صحافی شامل ہیں، جنہیں گھروں سے اغوا کیا گیا، اور بعد ازاں ان کی مسخ شدہ لاشیں کئی دن یا ہفتوں بعد ملی ہیں۔ یہ پورا عمل دہشت، دھونس اور جبر کی ایک منظم پالیسی کی عکاسی کرتا ہے جو بلوچ نسل کشی کی جانب اشارہ کرتا ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی کے دوران آواران بلوچستان کا سب سے زیادہ عسکری زون بن چکا ہے، جہاں فوجی آپریشنز نے پورے ضلع کو ایک غیر علانیہ قید خانے میں بدل دیا ہے۔ شہریوں کی نقل و حرکت شدید طور پر محدود ہے۔ ضلع میں داخلہ فوجی چیک پوسٹوں کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔ مقامی باشندے شام کے بعد ایک غیر اعلانیہ کرفیو میں زندگی گزارتے ہیں۔
رپورٹ میں شامل ہے کہ طبی ایمرجنسی سمیت دیگر بنیادی سہولیات تک رسائی کے لیے بھی فوجی چھاؤنیوں سے اجازت لینا ضروری ہے، جس نے شہریوں کی زندگی کو براہ راست فوج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ فوجی اہلکاروں کو اس خطے میں مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔
2025 کے پہلے چھ مہینوں میں کم از کم 46 افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جن کا آج تک کچھ پتہ نہیں۔ اسی عرصے میں 24 افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، جنہیں یا تو فوجی تحویل میں، ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے مسلح گروہوں یا کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) کی جعلی مقابلہ کارروائیوں میں نشانہ بنایا گیا۔ یہ اعداد و شمار غالباً اصل تعداد سے کم ہیں کیونکہ علاقے میں مواصلاتی ذرائع کی عدم دستیابی، خوف اور معلومات پر قدغن کے باعث زیادہ تر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔
خاص طور پر حراست میں ہلاک کیے جانے کے واقعات ایک سنگین رجحان اختیار کر چکے ہیں۔ بیشتر متاثرین کو فوجی کیمپوں میں طلب کیا جاتا ہے، اور بعد ازاں ان کی لاشیں ان کے ہی علاقوں میں پھینکی جاتی ہیں۔ اس طرز پر کارروائیوں میں ایک مخصوص تسلسل پایا جاتا ہے: اغوا، گمنامی، تشدد، اور قتل بغیر کسی قانونی کارروائی یا جوابدہی کے۔
انہوں نے کہاکہ یہ اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی شدید خلاف ورزیوں میں شمار ہوتے ہیں، بشمول بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق (ICCPR)، جس پر پاکستان دستخط کنندہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل اور ریاستی تحفظ میں کام کرنے والے قاتل گروہوں کی سرگرمیاں نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہیں، بلکہ بلوچستان میں شہری حکمرانی اور قانون کی حکمرانی کے دعوے کو بھی مکمل طور پر بے نقاب کرتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ہم درج ذیل اقدامات پر زور دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی خصوصی ورکنگ گروپس جیسے جبری یا غیر ارادی گمشدگیوں کے لیے ورکنگ گروپ، ماورائے عدالت، فوری یا بلا جواز قتل کے لیے خصوصی نمائندہ، اور انسانی حقوق کے محافظین کی صورتحال پر خصوصی نمائندہ، فوری طور پر بلوچستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی تحقیقات کریں۔
انہوں نے کہاکہ حکومت پاکستان فوری طور پر جبری گمشدگیوں کا خاتمہ کرے، ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈز کو تحلیل کرے، اور تمام رپورٹ شدہ قتلوں پر شفاف قانونی کارروائی کو یقینی بنائے۔
اپیل کیا گیا ہےکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سفارتی ادارے پاکستان پر انسانی حقوق کی پاسداری اور ذمہ داری کے نفاذ کے لیے دباؤ ڈالیں۔