میر نصیر خان نوری – سمیرا بلوچ

37

میر نصیر خان نوری

تحریر: سمیرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اس موبائل اور سوشل میڈیا کے دور میں کتابوں سے محبت کا رحجان بہت ہی کم ہوگیا ہے۔ ایک دور ہوا کرتا تھا کہ کتابیں گھروں کی زیبائش اور انسان کے معتبر ہونے کی علامت ہوا کرتی تھیں۔ گھروں میں باقاعدہ ایک مخصوص کمرہ کتابوں کے لیے وقف ہوتا تھا۔ گرمیوں کی لمبی دوپہر میں ٹھنڈی مشروبات کے ساتھ، سردیوں کی لمبی راتوں میں گرم چائے کی چسکیوں کے ساتھ کتاب پڑھنے والے مطالعے کا لطف اٹھاتے تھے۔ رات کو سوتے وقت سرہانے موبائل کی جگہ ایک ضخیم کتاب ہوا کرتی تھی، لیکن اب وہ دور نہیں رہا۔

کتاب پڑھنے والوں کی محفلیں بھی الگ کشش رکھتی تھیں، انکی مجلسوں میں کتابوں پر باتیں اور تبصرے ہوا کرتے تھے، کتاب پڑھنے والوں کو چاہیے کہ وہ کتاب کو جب پڑھیں تو اسکو اپنی ذات تک محدود نہ رکھیں، اس کتاب کے خلاصے کو اپنے دوستوں اور کتاب پڑھنے والے ساتھیوں کے ساتھ ضرور شئیر ریویو کریں۔

ریویو دیتے یا لکھتے وقت ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ریویو میں جہاں آپ نے مثبت پہلو کو اجاگر کرنا ہے، وہیں پھر اگر کوئی منفی پہلو ہوا تو اسکو بھی اجاگر کرنا بھی اسی طرح ضروری ہے، اس سے پھر آپ ایک جامع اور درست ریویو دے کر غیر جانبدار ہوکر صحیح اور غلط کے فرق سے اپنے قارئین کو آشنا کر سکیں گے۔

ابھی حال ہی میں، میں نے ایک کتاب میر اعظم میر نوری نصیر خان کا مطالعہ کیا، اس کتاب پر چند لائنوں میں ریویو دینا اس کتاب کے ساتھ نا انصافی تھی تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک تفصیلی تقابلی جائزہ اس کتاب پر دی جائے۔ اس کتاب کو نامور تاریخ دان فاروق بلوچ صاحب نے تحریر کیا۔ یقین جانیے انھوں نے اس عظیم کردار کے ساتھ انصاف کیا ہے، نوری نصیر خان کی اس سے بہترین بائیو گرافی آپ کو پڑھنے کے لیے کہیں اور نہیں ملے گی۔ اپنی تمام تر ریسرچ کو ریفرنس کے ساتھ پیش کرکے اپنے پڑھنے والوں کے ذہن میں میر نصیر خان نوری کے کردار کا تاریخی اور تحقیقی جائزہ لے کر کسی مغالطے کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر آپ کو ایک طرح کی تسکین ملے گی، کیونکہ آپ کے علم میں اس کتاب کے مطالعے سے اضافہ ہوگا۔

نوری نصیر خان نا صرف بہادر تھے بلکہ دوراندیش بلوچ حکمران تھے۔ بچپن سے اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین سے دور افغانستان میں اپنا بچپن گزارنے والے میر نصیر خان کو اپنی سرزمین کی قدر اور اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔ انھوں نے دور رہ کر اپنے سرپرستوں کی اقتدار کی نا اہلیوں کو سمجھ لیا تھا۔ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے تو انھوں نے ارادی طور پر دل میں ہی یہ فصیلہ کر لیا تھا کہ اب اپنے وطن کی بھاگ دوڑ کسی بھی حال میں خود ہی سنبھالیں گے۔ اور اقتدار کا جانشین بننے کے لیے انھیں اپنے بھائی کا خون بھی کرنا پڑا، یہاں پر آپ منصف کے قلم کو تھوڑا جانبدار پائیں گے، اور یہ دنیا کی تاریخ کی حقیقت بھی ہے کہ حکمرانی اور بادشاہت کے لیے ظالم ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ہر موقع پر رحم دل ہی ایک بادشاہ کے اقتدار کو ڈبا دیتی ہے۔ میں نے خود جب سپین کی تاریخ پڑھی تو اس میں ایک بھائی نے اپنے باپ سمیت اپنے سولہ بھائیوں کا قتل تخت کو حاصل کرنے کے لیے کیا تھا۔ میں یہاں پر نصیر خان کو درست ثابت کرنے کے لیے کوئی جواز پیش نہیں کر رہی ہوں، تاریخ میں بادشاہت کے اصول کے لیے جو کیا جاتا تھا اسی کو بیان کر رہی ہوں۔

میر نصیر خان نے پھر خود کو ایک عظیم رہنما ثابت بھی کیا، بلوچوں کی سرزمین جو ریاستوں میں بٹی ہوئی تھی اس کو یکجا کرکے بلوچ سرزمین کو بلوچستان کا نام دیا، زراعت کو عروج پر پہنچا دیا، سڑکیں اور پانی کے نظام کو بہتر بنایا۔ بلوچستان کے سرحدوں کو حدود دی۔ احمد شاہ ابدالی کے پوچھنے پر میر نصیر خان نوری نے کہا تھا کہ جہاں تک بلوچی بولی جاتی ہے وہاں تک بلوچ سرزمین کی حدود ہے۔

میر نصیر خان نوری نے جتنی بھی جنگیں احمد شاہ ابدالی کے ساتھ لڑی تھیں ان سب جنگوں کے مال غنیمت کو عوام پر خرچ کیا جس کی وجہ بلوچوں کا وہ سنہری دور تھا۔ بلوچوں کی ایک منظم فوج بنائی۔ مکران پر نو حملے کرکے بلوچوں کے بکھرے ہوئے شیرازے کو یکجا کرکے ایک ہی لڑی میں پرو دیا۔ لیکن مکران پر حملے کے دوران ذکریوں کے قتل پر آپ میر نصیر خان نوری کو ایک سخت مذہبی اور جابر بادشاہ پائیں گے۔ (گوکہ ذکریوں کے قتل کے وجوہات، حکمرانی و بادشاہت کے خلاف بغاوت وغیرہ جیسے نقاط پر بحث کی گنجائش ہے۔)

مذہبی سخت گیری کے علاوہ آپ میر نصیر کی شخصت میں کوئی اور کمی نہیں دیکھیں گے، میر نصیر خان کا دور ایک سنہرا دور تھا۔ نصیر خان نہ صرف ایک عظیم اور وسیع و عریض قومی ریاست تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے بلکہ انھوں نے 45 سال تک کامیابی کے ساتھ حکومت بھی کی، اور اپنے لوگوں کو آباد اور خوش رکھا۔ بیرونی طاقتوں سے عوام کے ساتھ مل کر جنگیں لڑی اور سرزمین کا محافظ بنا رہا۔ اس سرزمین کی مائیں ابھی بھی میر نصیر خان جیسے بہادر فرزند پیدا کر رہی ہیں، لیکن افسوس کہ میر نصیر خان جیسا دوسرا کوئی حکمران اب تک پیدا نہیں ہوسکا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔