ماجبین بلوچ اور بلوچ سردار – سمیرا بلوچ

43

ماجبین بلوچ اور بلوچ سردار

تحریر: سمیرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بحیثیت بلوچ لڑکی کے میں یہ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور ہوچکی ہوں، کہ میرے وارث جن کو بلوچ قوم کی ننگ و ناموس، جان، مال اور عزت کے محافظ بنا کر سردار کا لقب دیا گیا تھا۔ وہ اب سردار نہیں بلکہ غلام ہوگئے ہیں۔ شہید نواب اکبر خان بگٹی نے اپنی باہوٹ میں ایک غیر قوم کی بیٹی کی عزت کی خاطر ایک ایٹمی طاقت کے فوج سے جنگ گی، وہ غیرت اب کے بلوچ سرداروں میں کیوں نہیں رہی!؟ کیا ان بلوچ سرداروں کو بلوچ عورتوں نے نہیں جنا ہیں؟ کیسے یہ بلوچ سردار اپنے محل نما گھروں میں سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں؟ کیا اب بلوچ کا سردار کا خون اتنا ٹھنڈا ہوگیا ہے کہ اب اس میں لہو جیسی گرمی باقی نہیں رہی بلکہ پانی جیسا ٹھنڈا ہو گیا ہے۔

چاکر رند کے فرزندوں میں کیوں وہ خون باقی نہیں رہا جو چاکر رند اپنے باہوٹ میں آنے والی ایک ماہی کی جان اور مال کے تحفظ کی خاطر اپنے ہی بلوچ بھائیوں کے ساتھ خون بہانے سے نہیں کترائے؟ بلوچستان خاموش اور سنسان ہو گیا ہے، کسی گلی کھوچے میں کوئی ایک آواز اپنی بہنوں کی تحفظ اور اغیار کی قید سے رہائی کے لیے نہیں اٹھا رہی ہیں۔

بلوچ عوام تو اپنی مدد آپ کے تحت اس ظلم کے خلاف احتجاج تو کر رہے ہیں ، لیکن وہ پراثر اس لیے نہیں ہے، کیونکہ انکی سربراہی کے لیے کوئی رہنما نہیں ہیں ، اگر آج بلوچ عوام کے ساتھ سردار ثنا اللہ زہری ، سردار اختر جان منیگل ، سردار عمر گوریج ، سردار چینگز ساسولی، جھالان اور سراوان کے سردار کھڑے ہوتے اور ریاست کو للکار کر پکارتے، تو کیا اس کھٹ پتلی سرفراز اور اس کے حواریوں میں اتنی ہمت ہوتی کہ وہ بلوچ بیٹیوں کو پابند سلاسل رکھ سکتے تھے۔ بلوچستان کی سڑکیں بند ہوتی ، تجارت اور معمول زندگی کو روک دیا جاتا تو کیا یہ ہماری بلوچ بیٹوں کو اپنی قید میں رکھ سکتی تھی؟ بالکل بھی نہیں!

یہ سوچ کر ہی گھٹن ہوتی ہے، کہ پتہ نہیں معصوم ماجبین کو کیسی ذہنی اذیتیں دی جا رہی ہیں ، بلوچ کمسن نودربر لڑکے بھی اس ریاست کی ٹارگٹ ہیں ۔لیکن افسوس بلوچ سردار اپنی غلامی کی چادر میں آنکھیں موند کر خرگوش کی نیند سو رہے ہیں۔ بلوچ قوم نے کچھ وقت پہلے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو قوم کا سردار کا لقب دیا ہیں ، کیونکہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ قوم کے لیے سردار کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ریاست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلوچ جبری لاپتہ کیے جانے والوں کی وارث بنا کر سوال کرتی ، احتجاج کرتی، انکے لواحقین کی آواز بن جاتی ، مسخُ شدہ لاشوں کی شناخت کرواتی انکو ان کے لواحقین کے سپرد کرتی ، سردار کا تو یہی کردار ہوتا ہے۔

جب سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو ریاست نے قید کیا ہوا ہے، بلوچ کو لاوارث بنا کر سمجھ کر ریاست ان پر جبر اور بربریت کے پہاڑ توڑ رہی ہیں اور ریاست کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، سرکار ایک خونی جنون میں متبلا بلوچ نوجوان کی مسخ شدہ لاشیں روزانہ کی بنیاد پر بلوچوں کو دے رہی ہیں ۔ بلوچ عورتیں ،کمسن نوجوان اور شعور یافتہ طبقہ خصوصآ ریاست کے ٹارگٹ پر ہیں

تو اس ظلم کے دور میں بلوچ کو اپنے رہنما کی رہنمائی کی اشد ضروت ہے، بلوچ قوم کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور انکی دیگر ساتھیوں کی رہائی کے لیے ایک نئی حکمت عملی کی ضروت ہے۔ کیونکہ ایک قوم رہنما کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔بلوچ بیٹیوں کی اذیت خانون میں قید اور بلوچ سرزمین پر ایسی خاموشی ، ریاست کی کامیابی ہے، اب اگر ہم اس ظلم کے خلاف بیدار نہیں ہوۓتو یقین جانو، ہر بلوچ بیٹی ریاست کی عقوبت خانون میں ہوگی۔

اس پہلے کے بلوچ کا ہر بچہ بلوچ سرداروں کی طرح بے حس ہوجائے، بیدار ہوجاؤ بلوچ قوم!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔