قفسِ شجاعت میں گواھرو
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
کوہِ گمگشتہ کی اُس گہری کھائی میں، جہاں ہوا بھی دبی دبی سانس لیتی ہے، ایک صدا صدیوں سے گونج رہی تھی۔ یہ وہ صدا تھی جو کبھی بانسری کی مانند نرم، اور کبھی صیقل شدہ خنجر کی مانند کاٹ دار سنائی دیتی۔ یہی وہ وادی تھی جہاں رات اور دن کی تمیز صرف زخموں کے رسنے سے کی جاتی تھی۔ اسی وادی کے ایک گوشے میں، ایک پرانا درخت ایستادہ تھا، جس کی جڑیں زمین کے نہاں خانوں میں کسی پرانی فتح کا راگ سناتی تھیں۔ اُس درخت کی کھو میں ایک کہانی چھپی تھی، گواھرو کی کہانی۔ مگر یہ عام کہانی نہ تھی، یہ اُن نایاب داستانوں میں سے ہے، جنہیں صرف وہی سمجھ پاتے ہیں جنہوں نے آنکھوں سے گواھرو کو جلتے بجھتے دیکھا ہے۔
کہتے ہیں ایک وقت تھا جب گواھرو، شمالی لشکر کے لشکریوں میں کپتان کے درجے پر فائز تھا۔ اس کا زِرّہ نہ صرف فولادی تھا بلکہ اُس کے دل کا آہن بھی کمالِ سلیقے سے گھڑا گیا تھا۔ وہ کسی اور کی جنگ کا سالار تھا، مگر دل اس کی بیعت میں نہ تھا۔ مگر تقدیر کو شاید وہ منظر مقصود تھا جب ایک دن گواھرو کی نگاہیں ایک خون آلود ندی پر جا ٹکیں، جہاں اس کے اپنے ہم نسل، اپنی مٹی کی خوشبو میں لت پت، بے گور و کفن پڑے تھے۔ اُس دن سورج کچھ اور ڈھلا، اور گواھرو نے اپنے ہی بَیج کو کاٹنے والے ہاتھوں سے توبہ کی۔ یوں وہ ایک خاموش الوداع کے ساتھ لشکر چھوڑ گیا۔ تاریخ کی سطور میں اُس لمحے کو “ظلمت سے انکار” کہا گیا۔ وہ تاریکی سے نکل کر اس روشنی کی طرف آیا جو تلوار کی نوک پر جلتی ہے، مگر دل کو جِلا دیتی ہے۔
گواھرو، جس کا جنم مٹی سے نہیں، بلکہ شرمندگی، بغاوت، اور حلفِ نو سے ہوا۔ اس نے اپنی بندوق کو زمین میں گاڑ دیا اور اس کے بدلے پہاڑوں سے وفاداری کا وعدہ لیا۔ وہ پہاڑ، جو صدیوں سے گونگے تھے، اس کے قدموں سے بولنے لگے۔ ہر وادی نے اس کے گُزرنے کے بعد ایک نیا نام اپنایا، ہر پتھر نے اپنی سختی کو اس کی سوچ کے سامنے نرم کر دیا۔ وہ صرف کمانڈر نہ تھا، وہ ایک رمز تھا، ایک طلسماتی حقیقت، جس کی روشنی ہر اندھیرے کو منور کرتی مگر خود اندھیرے میں گم رہتی۔ اسکے شب و روز ایک ایسی رقص گاہ میں بدل گئے جہاں حکمت، قربانی، نظم، اور درویشی ایک ساتھ ناچتے تھے۔ لوگ کہتے تھے وہ دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ایسی بات کرتا تھا، جیسے فلسفے کی کوئی گمشدہ کتاب مل گئی ہو۔ اُس کی ہر بات، ہر خاموشی، ہر فیصلہ وقت کو مجبور کر دیتا کہ وہ رُک کر سوچے، کہ کوئی جنگ ایک فرد کے ویژن سے بھی جیتی جا سکتی ہے۔
پھر ایک دن، جب وہ ایک زہریلے میدان میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گزر رہا تھا، مٹی نے شعلہ اگل دیا۔ زمین نے احتجاج کیا، اور گواھرو کی پنڈلیاں اس شور میں دب گئیں۔ کچھ لمحے کے لیے وہ صرف خاموشی بن گیا، ایسی خاموشی جو سانس لیتی ہے، جو صدا دیتی ہے مگر بغیر آواز کے۔ اُسے قریبی غار میں لے جایا گیا، خون کو روکا گیا، مگر قسمت کی رگ پھٹ چکی تھی۔ رات کے سناٹے میں ایک خیمہ نمودار ہوا، جس کے دروازے پر نہ کوئی نشان تھا نہ تحریر۔ بس کچھ آنکھیں تھیں جن میں شوق نہیں، شکوک تھے۔ وہ ہسپتال نہ تھا، مگر سفید کوٹوں کا ہجوم تھا۔ اس کے جسم کے گرد سوالات لپیٹے گئے، اور اُس کے زخموں کو مرہم نہیں، مشکوک تجزیوں کی سوئیاں چبھوئی گئیں۔ اور وہ قفس نشین بن گیا۔ اب گواھرو اس قید میں ہے، جہاں دیواریں بولتی نہیں، مگر سنتی ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں میں سمندر چھپائے بیٹھا ہے، اور ہونٹوں پر وہ دعا رکھتا ہے جو صرف اذیت کے عارفوں کو آتی ہے۔
گواھرو کا ذکر اب فقط خفیہ محفلوں میں ہوتا ہے۔ جیسے کوئی صوفی زادے کی تمثیل، جو عشقِ وطن میں فنا ہوا ہو، اور اُس کی خاک سے وہ پودے اگتے ہوں جو جنگ کی بارش میں بھی سرسبز رہیں۔ لوگ اُس کا نام نہیں لیتے، وہ بس کہتے ہیں: “وہ جس نے وفاداری کا مطلب دوبارہ لکھا تھا۔” اور پھر خاموش ہو جاتے ہیں۔
کہتے ہیں جب کوئی پرندہ اپنی مرضی سے پنجرے میں داخل ہو، تو وہ صرف پنجرہ نہیں بدلتا، آسمان کا مفہوم بھی بدل دیتا ہے۔ گواھرو وہ پرندہ تھا جس نے پنجرہ خود چُنا، نہ کمزوری میں، نہ غفلت میں، بلکہ شعور کے عین عروج پر اس نے یہ انتخاب کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اصل آزادی کی قیمت فقط پرواز سے ادا نہیں ہوتی، بلکہ اُس انتظار سے میں جلوہ گر ہوتا ہے، جو پرواز کے امکان کو زندہ رکھتا ہے۔ اور اب وہ انتظار قید میں ہے۔ دنیا میں کوئی شے و سختی ایسی نہیں جو اُسے توڑ سکے، مگر سب کچھ جو اُسے تھامے ہوئے ہے، اُسی کی یاد میں ہے۔ جیسے ایک پرانا دریا جو خشک ہو چکا ہو، مگر زمین کی گہرائی میں اُس کی نمی ابھی باقی ہو۔ گواھرو بھی ایسی ہی ایک نمی ہے، جو زمین کے اندر، وقت کے نیچے، تاریخ کے سائے میں زندہ ہے۔ کچھ لوگ اس کے وجود کو مٹا دینا چاہتے ہیں، جیسے ہاتھ کی پشت سے کسی چراغ کی لو بجھائی جاتی ہے۔ مگر وہ لو جسے شبِ ظلمت میں امید نے جلایا ہو، اُس پر کسی پھونک کا اثر نہیں ہوتا۔ گواھرو کی موجودگی اب فقط اس کے جسم میں نہیں، بلکہ ان ساری راتوں میں ہے، جب کوئی سپاہی بارودی سرنگ کے ساتھ دعا پڑھتا ہے، جب کوئی ماں چاندنی میں بیٹے کے قدموں کی چاپ سنتی ہے، اور جب کوئی شاعر دشمن کے خیمے کے باہر استعاروں سے گواھی دیتا ہے۔
بعض راتیں ایسی آتی ہیں، جب زندان کی دیواروں پر سایے نہیں پڑتے، فقط خاموشی اُترتی ہے۔ تب گواھرو اپنی بند آنکھوں میں اُس جنگ کا خاکہ بناتا ہے جو کبھی اس نے شروع کی تھی۔ وہ جانتا ہے کہ وہ اب محاذ پر نہیں، مگر اُس کا تصور اُن نقشوں پر چھایا ہوا ہے، جو آنے والے حملوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ اب ہتھیار نہیں اُٹھاتا، مگر اُس کا نام گولیوں کا رخ طے کرتا ہے۔ وہ قید میں ہے، مگر مزاحمت اُس کے خوابوں کی ترتیب میں سانس لیتی ہے۔ دنیا اُسے بھول جائے، تاریخ اُسے فراموش کر دے، تب بھی وہ جو حق سے آشنا ہیں، جو خنجر کی نوک پر خندہ پیشانی کے ہنر سے واقف ہیں، وہ گواھرو کو نہ صرف یاد رکھیں گے، بلکہ اس کی خاموشی کو زبان بنائیں گے۔ وقت گزرے گا، لوگ آئیں گے، نظریئے بدلیں گے، مگر کچھ قبریں ایسی ہوں گی جہاں پھول نہیں، آنکھیں رکھی جائیں گی۔ ایک دن، جب آزاد فضا میں کوئی لڑکی بانسری بجائے گی، اُس کی دُھن میں ایک کمانڈر کی قید کی کہانی پوشیدہ ہوگی۔ نہ نغمے میں گواھرو کا نام ہوگا، نہ تصویر، مگر سننے والے جان جائیں گے کہ وہ دُھن اُسی کی ہے، جو آج بھی قفس میں اپنی قوم کے لئے آزادی کا خواب دیکھ رہا ہے۔
کہانی ختم نہیں ہوتی، فقط مقام بدلتا ہے۔ قافلہ کہیں رُک جاتا ہے، اور مسافر کی چاپ یاد بن جاتی ہے۔ گواھرو کی داستان بھی ایک ایسی داستان ہے، جو کہی نہیں گئی، فقط محسوس کی گئی۔ جیسے پتھروں کے بیچ کوئی چشمہ چھپ کر بہہ رہا ہو، اور صرف وہی دیکھ پائے جو پیاسہ ہو، جسے معلوم ہو کہ پانی آواز نہیں دیتی، فقط خاموشی میں راستہ دکھاتا ہے۔ گواھرو کا قفس، فقط قید خانہ نہیں، ایک آئینہ ہے، جس میں ہم سب کی بےبسی، بےوفائی اور بازوؤں کی شکستگی عکس بنتی ہے۔ مگر یہ آئینہ، ٹوٹتا نہیں ہے کیونکہ اس میں محض قید کا عکس نہیں، شعور کا عکس بھی ہے، جو ہر زنجیر کو معنی بخشتا ہے۔ وہ قید جسے وہ جھیل رہا ہے، شاید جسم کی قید ہو، مگر اُس کی فکر، اُس کا سوال، اُس کی خاموشی، دشمن کے ہر قلعے سے بلند ہے۔ اور یہی وہ سچ ہے جو ہر قبضہ گیر کو خوفزدہ کرتا ہے، وہ خوف جو گواھرو کے زخموں سے نہیں، اُس کی غیر موجودگی میں بھی موجودگی سے جنم لیتا ہے۔
کہا جاتا ہے، ہر دور کی تاریکی میں کچھ چہروں کو بھلا دیا جاتا ہے، اور کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو مٹائے جانے کے باوجود وقت کے پردے پر کندہ رہتے ہیں۔ گواھرو بھی ان ہی میں سے ہے۔ وہ جن کے نام کتبوں پہ نہیں ہوتے، مگر جن کی سانسیں پہاڑوں کے سکوت میں سنائی دیتی ہیں۔ وہ جنہیں نہ ایوان یاد رکھتے ہیں نہ عدالتیں، مگر جن کی تصویر، کسی بچی کی سسکیوں میں، کسی ماں کی خاموش آہوں میں، اور کسی فدائی کے خون آلود ماتھے پہ اترتی ہے۔
میں، جو گواھرو کا ہم راز رہا ہوں، جس نے اُس کے فکر کے دائرے میں سانس لیا ہے، میں کہتا ہوں، گواھرو اب ایک شخص نہیں، ایک استعارہ ہے۔ وہ مزاحمت کا وہ باب ہے جو بند نہیں ہوتا، فقط اوراق بدلتا ہے۔ وہ زندان کی کوٹھڑی میں قید ہوکر بھی آزاد ہے، کیونکہ وہ اپنے اندر اُس قوم کی وہ پرچھائیں لے کر بیٹھا ہے جو ابھی تک مکمل روشنی میں جلوہ گر نہیں ہوئے۔
اگر کوئی دن آئے جب ہم اپنی کمزوریوں کو ہار نہیں بلکہ شرم کہیں، اگر کوئی شب آئے جب کوئی لڑکی اپنے گمشدہ والد کے خواب میں نہیں، حقیقت میں دیدار کرے، اگر کوئی صبح ایسی ہو جس میں کوئی ماں کسی مشن پہ بیٹے کو روانہ کرنے کے بعد رات کو سلامتی کی خبر پائے، تو جان لینا، گواھرو زندہ ہے۔ تب جان لینا، ہم نے صرف اُس کو نہیں بچایا، بکہ اپنے آپ کو بھی بچایا ہے۔ اور اگر ایسا دن نہ آئے، تو بھی گواھرو مرے گا نہیں۔ وہ اُس مٹی میں سانس لے گا جس پر وہ لڑا، اُس ہوا میں بولے گا جو اُس کے لہجے سے واقف ہے، اور اُس آگ میں زندہ رہے گا جو ابھی تک ہمارے سینوں میں سلگ رہی ہے۔
گواھرو فقط قیدی نہیں، گواہ ہے، ہمارے سوالوں کا، ہماری مزاحمت کا، اور ہمارے مقدر کے اُس موڑ کا، جہاں ایک سپاہی نے دشمن کی وردی اتار کر اپنے ضمیر کو پہن لیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔