فیصلہ کُن نوجوان منور
تحریر: نور زمان
دی بلوچستان پوسٹ
قوم کی تعمیر نوجوانوں سے شروع ہوتی ہے اور نوجوان ہمیشہ قومی تحریک کے لیے ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نوجوانی عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب آپ بچپن کے دور سے نکل چکے ہوتے ہیں۔ اکثر آپ نے یہ سنا ہوگا کہ نوجوان پختہ عمر یا سنِ شعور کی حدود میں داخل نہیں ہوئے ہوتے، لیکن بلوچستان کے نوجوانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہاں نوجوانی سے ہی شعور و علم سب کچھ ان کے دامن میں آ جاتا ہے۔ ہر کوئی نوجوان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ بلوچستان کے نوجوان باشعور ہیں۔
آج میں ایک ایسے نوجوان کے بارے میں کچھ لکھ رہا ہوں، جس کی داستان بلوچستان کے ہر نوجوان کی طرح ہے۔ بچپن سے ہی وہ سوچتا ہوگا کہ ہمارے سرزمین میں کیا ہو رہا ہے؟ کس قدر ظالم و جابر دشمن ہمارے اوپر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے؟ کس طرح وہ ہمارے ننگ و ناموس کو پاؤں تلے روند رہا ہے، کس طرح وہ ہماری ماں بہنوں کو سڑکوں پر گھسیٹ کر زندانوں میں ڈال رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے نوجوان پیدائشی طور پر باشعور بن کر میدانِ عمل میں اُترتے ہیں۔
ناکو بیگ محمد کا نوجوان بیٹا منور بھی انہی نوجوانوں کی تحریک کا حصہ تھا، جو ہر لمحہ یہ سوچتا تھا کہ آنے والا کل ہمارے ماں، بہن، بزرگوں کے لیے ایک خوشحال سرزمین کا ضامن ہو۔
منور کو یہ معلوم تھا کہ وہ اس تحریک کا حصہ بن رہا ہے، یہ راستہ بہت کٹھن ہے۔ اس میں تمام تکالیف اور درد ایک ساتھ جھیلنے پڑتے ہیں۔ دوستوں کی شہادت یا کسی اور درد کے ساتھ جینا پڑتا ہے۔ ان سب کو چھوڑ کر بھوک، گرمی، سردی اور سفر کی مشکلات سب ایک ساتھ ہی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔
یہی سوچ انسان کو پختہ کر دیتی ہے، یہی سوچ انسان کو منزل کی طرف لے جاتی ہے، یہی سوچ انسان کو تاریکیوں سے نکال کر روشن راستہ دکھاتی ہے، یہی سوچ انسان کو ان برائیوں سے بچاتی ہے جو سماج کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔
منور کی داستان دشت کلیور بازار سے شروع ہو کر ساہیجی پہاڑوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتا ہوگا کہ آیا وہ بھی خوشحال زندگی کی تلاش میں ہے؟ جی ہاں، اس سوال کا جواب اسے اُس وقت مل گیا ہوگا جب دشمن نے اسے ساتھیوں سمیت گھیرے میں لے لیا۔ منور نے دشمن کو یہ پیغام دیا کہ وہ آپ کے ظلم و ستم کو مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ آپ کے جبر کی داستان شاید طویل ہو، لیکن منور جیسے نوجوانوں نے اسے بہت قریب کر دیا ہے۔ ہر آنے والی نسل کے لیے یہ پیغام چھوڑا ہے کہ طویل غلامی کا خاتمہ صرف جدوجہد سے ممکن ہے اور جدوجہد ہی آپ کو اس غلامی سے نجات دلا سکتی ہے۔
منور تب باشعور بن چکا تھا جب اس نے 2017 کے آخر میں وہ وقت دیکھا جب فورسز نے اس کے والد بیگ محمد کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا تھا۔ شاید اسی دن سے اس نے سوچا ہوگا کہ یہ ریاست ہمارے لیے کچھ نہیں کر سکتی، اس لیے اس نے یہی راستہ چنا۔
بیس جون کے دن جب فورسز نے اسے ساتھیوں سمیت گھیر لیا تو اس نے بھرپور مزاحمت کی اور فورسز کے گھیرے کو ناکام بنایا۔ فورسز کو کاری ضرب لگا کر خود زخمی ہوا اور کچھ فاصلے پر شہادت کے مقام تک پہنچ گیا۔
آپ کی جوانمردی اور بہادری کو، اور تمام شہداء کو سرخ سلام کہ اپنی مادرِ وطن کے لیے لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔ یہ جرات مندی ہر کسی کے نصیب میں نہیں آتی، لیکن خوش نصیبی نے اپنا کردار ادا کیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔