بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ ریاست پاکستان کے سیکیورٹی ادارے بلوچستان میں عدل و انصاف کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو طاقت اور قانون کے دوہرے ہتھیار کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ ایک برس سے “فورتھ شیڈول” جیسے نوآبادیاتی قانون کی آڑ میں بلوچ عوام کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ترجمان نے کہاکہ بلوچستان بھر میں اس وقت ہزاروں بلوچ شہری، جن میں سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان، ادیب، شاعر، فنکار، اساتذہ، طلبہ اور دیگر معزز شخصیات شامل ہیں، کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے ہیں۔ ان افراد کو روزانہ تھانوں میں حاضری دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، ان سے تحریری ضمانتیں لی جاتی ہیں جن میں وہ وعدہ کرتے ہیں کہ کسی بھی عوامی سرگرمی، اجتماع یا سفر سے قبل سرکاری اجازت حاصل کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ یہ عمل نہ صرف آئینی و انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک شہری کی عزتِ نفس کو کچلنے کے مترادف ہے۔ ریاستی ادارے معمولی بہانوں پر شہریوں کو ہراساں کرتے ہیں، جھوٹے مقدمات میں ملوث دکھاتے ہیں، اور ان کی سیاسی و سماجی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ حال ہی میں اس ریاستی جبر کی ایک اور سنگین شکل سامنے آئی ہے: فورتھ شیڈول میں شامل افراد کو نام نہاد کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) کی جانب سے زبردستی سردار نور احمد بنگلزئی اور ضیاء لانگو کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ وہاں ان افراد پر دباؤ ڈال کر ان کے زبردستی بیانات کی ویڈیوز بنائی جائیں گی، جیسا کہ ماضی میں بھی کیا گیا ہے۔ ان ویڈیوز میں عام شہریوں سے جبراً یہ کہلوایا جاتا ہے کہ وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی یا کسی قوم پرست تنظیم سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں اور نام نہاد ریاستی بیانیے کی تشہیر کی جاتی ہے۔ بعد ازاں یہ ویڈیوز بغیر اجازت میڈیا پر نشر کی جاتی ہیں، جو ان افراد کی عمر بھر کی تذلیل، بلیک میلنگ اور سماجی تنہائی کا باعث بنتی ہیں۔
مزید کہاکہ یہ تمام اقدامات آئین، قانون اور اخلاقیات کی سراسر خلاف ورزی ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عدلیہ بھی یا تو اس جبر پر خاموش ہے یا اس میں شریک نظر آتی ہے۔ فورتھ شیڈول کے خلاف عدالتوں میں دائر درخواستوں کو سماعت کے بغیر ہی مسترد کیا جا رہا ہے، جو عدالتی غیر جانبداری پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔
ترجمان نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست پاکستان نے بلوچستان کو ایک وسیع قید خانہ اور اذیت گاہ میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں ریاستی عسکری و سول ادارے طاقت، قانون اور میڈیا کو ہتھیار بنا کر بلوچ عوام کی زندگی اجیرن بنا رہے ہیں۔ جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر مظالم کے ساتھ ساتھ اب قانون کا استعمال بھی صرف جبر کے تسلسل میں شدت پیدا کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں بلوچ شہریوں کے زندگیوں کو فورتھ شیڈول کے تحت محدود کیا گیا ہے، انہیں مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے اور اب انہیں ریاستی سرداروں کے سامنے پیش ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے، تاکہ ان کی عزت و وقار کو مکمل طور پر پامال کیا جا سکے اور بلوچ قوم کو ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا جا سکے۔
آخر میں کہاکہ ہم بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اس جبر، استحصال اور انسانی وقار کے خلاف کسی صورت خاموشی اختیار نہ کریں بلکہ منظم ہو کر اجتماعی جدوجہد کا حصہ بنیں۔