غنی بلوچ کی گمشدگی: قومی شعور پر ایک نفسیاتی وار
تحریر: زِر مہر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں جبری گمشدگی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پاکستانی ریاست نے یہاں اپنی رٹ قائم رکھنے کے لیے جبری گمشدگی کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ یہ مسئلہ صرف انفرادی یا مقامی نہیں رہا بلکہ ایک قومی المیہ بن چکا ہے۔ جبری گمشدگیوں کے باعث نوجوان نسل میں ہمیشہ ایک انجانا خوف طاری رہتا ہے کہ کہیں وہ بھی لاپتہ نہ کر دیے جائیں۔ اس خوف زدہ ماحول نے بلوچستان میں ایک اجتماعی ذہنی اضطراب اور بے چینی کو جنم دیا ہے۔
جبری گمشدگیاں صرف کسی شخص کے جسمانی طور پر غائب ہونے کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک شدید نفسیاتی، معاشرتی اور سیاسی صدمہ ہے۔ غنی بلوچ جیسے درجنوں نوجوان لکھاری، سکالرز اور اسٹوڈنٹس کی گمشدگی ریاستی جبر کی علامت ہے۔ اس کے اثرات صرف گمشدہ فرد تک محدود نہیں رہتے بلکہ اُس کے خاندان، دوستوں، برادری اور پوری قوم کی اجتماعی نفسیات پر گہرے زخم چھوڑتے ہیں۔
جب کوئی شخص اچانک لاپتہ ہو جائے تو اس کے عزیز و اقارب مسلسل بے یقینی اور اضطراب کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ کیفیت ایک خاص نفسیاتی تجربہ ہے جسے “جسمانی غیر موجودگی مگر ذہنی و جذباتی حاضری” کہا جا سکتا ہے — یعنی شخص جسمانی طور پر غائب ہے، لیکن ذہنی اور جذباتی طور پر ہر لمحہ موجود رہتا ہے۔
جبری گمشدگی ایک ایسا گہرا ذہنی صدمہ ہے جس کے تحت متاثرہ خاندان شدید ذہنی دباؤ، خوف، مایوسی اور ڈراؤنے خوابوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہی کیفیت غنی بلوچ کے خاندان—خصوصاً ان کی والدہ، بہن، بیوی اور بچوں—نے بھی جھیلی ہے۔ اس درد کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ تکلیف صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جن کے پیارے لاپتہ ہوں۔ غنی بلوچ کے لواحقین اُن کی رہائی کے لیے ہر ممکن دروازے پر دستک دے رہے ہیں تاکہ اس اذیت ناک ذہنی عذاب سے نجات حاصل کر سکیں۔
جبری گمشدگی ایک “زندہ لاش” جیسی کیفیت ہے۔ جب کوئی شخص وفات پا جائے تو اس کا سوگ منایا جاتا ہے، اور اگر کوئی زندہ ہو تو خوشی منائی جاتی ہے۔ لیکن جب کسی کی زندگی یا موت دونوں کی تصدیق نہ ہو، تو خوشی اور غم دونوں ایک ساتھ ذہن پر حاوی ہو جاتے ہیں۔ یہ بے بسی کی صورتحال لواحقین کے لیے اعصابی طور پر نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اگر جبری گمشدگی طویل عرصے تک جاری رہے تو یہ نفسیاتی تکلیف جسمانی بیماریوں میں بدل سکتی ہے۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے لواحقین میں یہ کیفیت نہایت عام ہو چکی ہے۔
غنی بلوچ کی گمشدگی محض ایک خاندان کا المیہ نہیں بلکہ بلوچ قوم کے اجتماعی شعور پر حملہ ہے۔ ریاستی جبر اور جبری گمشدگیوں نے بلوچستان میں خوف کا ایک ایسا نفسیاتی ماحول پیدا کر دیا ہے، جس میں لوگ نہ صرف اظہارِ رائے بلکہ جدوجہد، احتجاج، اور حتیٰ کہ غم کا اظہار کرنے سے بھی خوفزدہ رہتے ہیں۔ یہ صورتحال ایک ایسی عدم تحفظ کا کلچر پیدا کرتی ہے جس میں ہر شخص دوسرے پر، اور خود پر بھی شک کرتا ہے۔
بلوچ معاشرہ اس وقت مسلسل اجتماعی صدمے (collective trauma) سے گزر رہا ہے۔ اس صدمے کی علامات بے حسی، مایوسی، سیاسی بے عملی، اور باہمی اعتماد کے فقدان کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہیں۔ غنی بلوچ جیسے تعلیم یافتہ، باشعور اور متحرک افراد، جو اپنی قوم کی شناخت، زبان اور حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تھے، ان کا جبری طور پر غائب کر دیا جانا دراصل بلوچ شناخت، تشخص، اور قومی شعور پر براہِ راست حملہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ شناخت کا بحران کسی بھی فرد یا قوم کو نفسیاتی طور پر کمزور کر دیتا ہے۔ جبری گمشدگیوں کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ عوام کو یہ پیغام دیا جائے: “تمہاری شناخت، تمہاری زبان، اور تمہارا وجود غیر محفوظ ہے۔” اس طرح بلوچ قوم کے اجتماعی اعتماد کو مسلسل زخم پہنچائی جا رہی ہے۔
جبری گمشدگی نہ صرف ایک فرد یا خاندان، بلکہ پورے خطے، پوری قوم، اور آنے والی نسلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ عمل بلوچستان کے سیاسی، معاشی، سماجی، گھریلو اور انسانی تعلقات کو گہرائی سے متاثر کر رہا ہے۔ گمشدہ افراد کے بچے، بیویاں اور اگلی نسلیں اس دکھ کو وراثت میں پاتی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک ٹرامہ زدہ اور جذباتی طور پر مجروح نسل تیار ہو رہی ہے۔
غنی بلوچ کی جبری گمشدگی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ جبری گمشدگی دراصل ایک نفسیاتی جنگ ہے، جس میں ریاست طاقت اور خوف کے ذریعے فرد کی خودی، آزادی، اور ارادے کو توڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ ریاست اپنے جبری گمشدگی پالسی کے بلوچستان کے تمام مکاتب فکر کے لوگوں یک واضع پیغام دیما چاہتی ہے کہ بلوچستان میں ہر وہ جو حق،حقوق او انصاف کے کیت آواز بلند کرتا ہے وہ اسکو لاپتہ کیا جاتا ہے، درحققت یہ پاکستانی ریاست وہ وحشی اور دہشت ناک چہرہ ہے جس کہ بلوچستان میں گذشتہ 70 سال سے استحصال کردہا ہے۔ ریاستی ادارے طاقت کا استعمال بلا روک ٹوک کرتے ہیں اور لواحقین کو انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے، ان جابرانہ پالیسی کی وجہ سے بلوچ معاشرے میں بے حسی، غصہ اور گہرا ذہنی دباؤ پیدا ہورہا ہے۔
تاہم، غنی بلوچ جیسے نوجوانوں کی بازیابی کے لیے کی جانے والی جدوجہد — چاہے وہ احتجاج ہو، پریس کانفرنس ہو یا عوامی پلیٹ فارمز پر آواز بلند کرنا بہت ضروری اور بازیابی عمل کے حصّے ہیں— دراصل ایک سیاسی مزاحمت ہے۔ یہ عمل باقی لاپتہ افراد کے لواحقین کو حوصلہ دیتا ہے، ان میں ذہنی بیداری پیدا کرتا ہے، اور قومی و اجتماعی شعور کو زندہ رکھتا ہے۔ بیک وقت یہ ظاہر کرتا ہے کہ لاحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے متحرک ہیں، وہ کسی بھی قسم کی ریاستی دباؤ میں سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ پُرامن سیاسی جدوجہد ہر فرد، شہری اور خاندان کا بنیادی حق ہے۔ یہ تمام سیاسی عمل ریاست کو ایک کلیئر پیغام بھیجتے ہیں کہ لاحقین اپنے پیاروں سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔
اس جبر کے خلاف مزاحمت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بلوچ نوجوانوں، دانشوروں، ادیبوں اور سیاسی کارکنوں کو اس جبری گمشدگی کے حوالے سے شعور پیدا کرنا ہوگا، تاکہ اجتماعی سطح پر اس کے خلاف مؤثر ردعمل منظم ہو سکے۔ ریاست پر دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ وہ آئندہ بغیر وارنٹ، بغیر مقدمے اور بغیر جرم کے جبری گمشدگی جیسے غیر آئینی اور غیر انسانی عمل کو روکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔